پاکستان میں آٹو فنانسنگ یا بینک سے قرض لے کر قسطوں پر گاڑی لینے کا رجحان سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ تقریباً دو سالوں سے گراوٹ کا شکار ہے۔
بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنے کے لیے لیے گئے قرضوں میں 2022 کے مقابلے میں تقریباً 22 فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔
سٹیٹ بینک کے جولائی 2024 کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2022 میں آٹو فنانسنگ کی مد میں بینکوں سے 293 ارب روپے بطور قرض لیے گئے تھے لیکن جولائی 2024 میں یہ کم ہو کر اب 227 ارب روپے رہ گئے ہیں۔
بینک سے گاڑی خریدنے کے رجحان میں گذشتہ 25 ماہ سے مسلسل کمی دیکھی گئی ہے۔ جون 2022 میں سٹیٹ بینک کے مطابق گاڑیوں کے لیے لیے گئے قرض کا کل حجم 367 ارب تھا اور تب سے اس میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔
جولائی 2022 میں کل حجم 360 ارب، اگست 2022 میں 352 ارب، ستمبر 2022 میں مزید کم ہوکر 350 ارب اور دسمبر 2022 میں قرضوں کا کل حجم 337 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
اسی طرح سٹیٹ بینک کے مطابق 2023 کے 12 مہینوں میں بینک کے ذریعے گاڑی فنانس کرنے کے لیے قرضوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔
جنوری 2023 میں گاڑیوں کے لیے لیے گئے قرضوں کا کل حجم 331 ارب روپے تھا اور دسمبر 2023 میں تقریباً 60 ارب روپے کم ہوکر 257 ارب روپے پر آگیا۔
اس کے بعد 2024 میں بھی یہی صورت حال تھی اور جنوری 2024 میں گاڑیوں کے لیے قرضوں کا کل حجم 251 ارب روپے تھا جو جولائی 2024 میں 227 ارب روپے تک گر گیا ہے۔
مجموعی طور پر گاڑیوں، مکان بنانے اور بینکوں سے دیگر ذاتی ضرورت کے لیے لیے گئے قرضوں میں بھی کمی آئی ہے اور جون 2023 میں قرضوں کی کل حجم 859 ارب روپے کے مقابلے میں جولائی 2024 میں یہ قرضے 801 ارب روپے تک گر گئے ہیں۔
آٹو فنانسنگ کے رجحان میں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان میں گذشتہ تین سالوں سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جبکہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ شرح سود میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان ادارہ برائے شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح مئی 2024 میں 11.8 فیصد تک گر گئی تھی اور اسی وجہ سے سٹیٹ بینک نے شرح سود 22 فیصد سے 20.5 فیصد تک کم کی تھی۔
سنیل منج پاکستان میں گاڑیوں کی خریدو فروخت کے لیے مشہور ویب سائٹ ’پاک وہیلز ڈاٹ کام‘ کے سربراہ ہیں اور ان کے مطابق مہنگائی میں اضافہ بینک کے ذریعے آٹو فنانسنگ کے رجحان میں کمی کی ایک وجہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی انٹر بینک آفرڈ ریٹ (یا آسان لفظوں میں بینک کی قرضوں پر شرح سود) اتنا زیادہ ہے کہ کوئی گاڑیاں لینے کو تیار نہیں ہے۔
سنیل منج نے بتایا، ’لوگوں کی آمدنی بھی کم ہوگئی ہے کیونکہ بجلی بل اور دیگر اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ لیز کے لیے پیسے بچتے ہی نہیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشہود خان ایسوسی ایشن آف پاکستان آٹو موبیل پارٹس کے سابق صدر اور آٹو سیکٹر کے ماہر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دو بنیادی وجہ تھیں، جن سے گاڑیاں لیز پر لینے کے رجحان میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’دو سالوں میں پہلے شرح سود 24 فیصد تھا اور ایک سال سے شرح سود میں کمی آگئی ہے اور پانچ ستمبر کو یہ 19 فیصد تھا۔
’تاہم ابھی تک آٹو فنانسنگ ٹرینڈ میں دوبارہ اضافہ نہیں دیکھنے کو ملا اور ٹرینڈ نیچے کی طرف ہے لیکن شرح سود کی کمی سے ٹرینڈ اوپر کی طرف ابھی جانا نظر نہیں آ رہا ہے۔‘
مشہود خان نے بتایا: ’دو سالوں میں ہوا یوں کہ کچھ بینکوں نے تو کار فنانسنگ شعبے ہی بند کیے تھے اور پھر اب مہنگائی اور مڈل کلاس لوگوں کی آمدنی پر ٹیکسوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔‘
انہوں نے بتایا کہ مڈل کلاس کی آمدنی میں اضافے میں کمی کی وجہ سے کار فنانسنگ میں کمی آئی ہے اور جب تک شرح سود واحد عدد پر نہیں آتا، اس رجحان میں اضافہ مشکل ہے۔
گاڑی لیز کروانے پر کتنا سود دینا پڑتا ہے؟
ایک نجی بینک کے آٹو کیلکولیٹر پر انڈپینڈنٹ اردو نے 80 لاکھ روپے کی ایک گاڑی کی فنانسنگ کی تفصیلات نکالیں، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر 80 لاکھ روپے کی گاڑی بینک سے لیز کروانی ہے تو اس پر پانچ سال میں تقریباً 25 لاکھ روپے اضافی دینے ہوں گے۔
اسی طرح اگر تین سال کے لیے 80 لاکھ روپے کی گاڑی لینی ہے تو اس پر تقریباً 18 لاکھ روپے اضافے ادا کرنے پڑتے ہیں۔