تمام چیف جسٹسز کی مدت میں توسیع کردیں، اپنے لیے قبول نہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ’بتایا گیا ہے کہ تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں تو میں نے انہیں کہا کہ باقیوں کی کرنا چاہتے ہیں تو کر دیں لیکن میں اپنے لیے توسیع قبول نہیں کروں گا۔‘

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے عہدے میں توسیع قبول نہیں کریں گے۔

پیر کو نئے عدالتی سال کی تقریب کے اختتام پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں کہا کہ ’بتایا گیا ہے کہ تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں تو میں نے انہیں کہا کہ باقیوں کی کرنا چاہتے ہیں تو کر دیں لیکن میں اپنے لیے توسیع قبول نہیں کروں گا۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے نئے عدالتی سال کے موقع پر صحافیوں نے سوال کیا کہ ’رانا ثنااللہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام جج صاحبان کی عمر بڑھا دی جائے تو آپ بھی ایکسٹینشن لینے پر متفق ہیں۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا ثنااللہ صاحب کو میرے سامنے لے آئیں۔ ایک میٹینگ میں وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ سے بات ہوئی تھی، جس میں جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور اٹارنی جنرل بھی تھے لیکن اس میٹنگ میں رانا ثنااللہ نہیں تھے، اس میٹنگ میں وزیر قانون نے کہا تھا کہ تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں تو میں نے انہیں کہا کہ باقیوں کی مدت ملازمت میں توسیع کرنی ہے تو آپ کا اختیار ہے لیکن میں اپنے لیے توسیع  نہیں لوں گا۔ مجھے تو یہ نہیں پتہ کہ کل میں زندہ رہوں گا بھی یا نہیں۔‘

اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ دنیا کے ہر نظام میں کچھ نہ کچھ خامیاں ہوتی ہیں اور پاکستان میں بھی اگر بدنیتی کا عنصر نکال بھی دیں تو بھی ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے جو اس کے 30-40 سال کے پیشہ ورانہ سفر کے دوران بنا ہوتا ہے۔

پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس نے نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر پچھلے ایک سال کی کاکردگی بتاتے ہوئے کہا کہ جس جج کے پاس مقدمہ لگ رہا ہوتا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ کسے فائدہ ہو سکتا ہے، ہر وکیل یہ چاہتا تھا کہ اس کا کیس فلاں جج کے پاس لگ جائے لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔

سپریم کورٹ میں گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد نیا عدالتی سال شروع ہو چکا ہے۔ نئے عدالتی سال کے موقع پر چیف جسٹس پاکستان، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے خطاب کیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’سب سے پہلا  کام بطور چیف جسٹس فل کورٹ بلانا ہی کیا تھا۔ اس میٹنگ میں ہم نے فیصلہ کیا تھا مفاد عامہ کے مقدمات براہ راست نشر ہوں گے۔ عام طور پر عوام وہی دیکھتے سمجھتے تھے جو کوئی ٹی وی چلائے یا یوٹیوبر دکھائے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ عوام خود ہماری کارکردگی دیکھیں۔ عوام خود دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں ہم میں شفافیت ہے یا نہیں۔ سب سے پہلا مقدمہ بھی فل کورٹ کا تھا۔ فل کورٹ 2015 کے بعد سے تشکیل دی ہی نہیں گئی تھی۔ ہم نے مقننہ کے بنائےقانون کا جائزہ لینے فل کورٹ بٹھائی۔ دس ججز نے اکثریتی فیصلہ دے کر اس قانون کو بحال کیا۔ مقننہ کا فیصلہ تھا کہ سب اختیارات چیف جسٹس کے پاس نہ ہوں۔ ہم نے اس قانون کو سراہا اور بحال کیا۔‘

اب کاز لسٹ چیف جسٹس نہیں رجسٹرار سپریم کورٹ بناتی ہیں

چیف جسٹس نے خطاب میں کہا کہ ’ماضی میں بینچ کی تشکیل سے لوگ کہتے تھے پتہ چل گیا فیصلہ کیا ہو گا۔ آج مجھے بھی نہیں پتہ ہوتا میرے دائیں بائیں والے ججز کیا فیصلہ دیں گے۔

’وکلا آج جائزہ لیں کیا آج بھی وہ بینچ کی تشکیل سے فیصلہ سمجھ لیتے ہیں؟ اگر اب ایسا نہیں ہے تو مان لیں شفافیت آئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ماضی میں جمعرات کو چیف جسٹس کو کاز لسٹ منظوری کے لیے بھیجی جاتی۔ میں نے یہ چیز بدل دی، اب مجھے کاز لسٹ نہیں بھیجی جاتی۔ اب کاز لسٹ بنانا رجسٹرار کا ہی اختیار ہے۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے۔ یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ لوگوں نے 30 چالیس سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے۔ اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ اس کا کیس کہاں لگ گیا۔

’وکلا بھی کئی بار چاہتے تھے ان کا کیس کسی مخصوص جج کے پاس لگے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی ان کے جج سے تعلقات ہوتے تھے بلکہ انہیں علم ہوتا تھا کس جج کا رجحان کس طرف ہے۔

’ہم نے اس پریکٹس کو بھی ختم کر دیا ہے۔ ماہانہ کاز لسٹ اب جاری ہوتی ہے تاکہ وکلا کو تیاری کا اچھا موقع ملے۔ اب ہم دو ہفتے کی کاز لسٹ بھی جاری کیا کریں گے۔ یہاں مقدمات کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ بچوں کی حوالگی جیسے مقدمات کی ہم نے الگ قطار بنا دی ہے۔ عوام چاہتی ہے ان کے مقدمات جلد نمٹائے جائیں اور ان کا پیسہ بچ سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس کو 3000 سی سی مرسڈیز بینز کی ضرورت نہیں تھی۔ لاہور رجسٹری میں کھڑی بلٹ پروف لینڈ کروزر بھی حکومت کو واپس بھیجی گئیں۔ حکومت کو کہا کہ ان گاڑیوں کو بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدیں۔‘

سپریم کورٹ کو خط لکھ کر سوال پوچھا جا سکتا ہے

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اب کوئی بھی خط لکھ کر سپریم کورٹ سے کچھ پوچھے تو اسے جواب دے دیا جاتا ہے۔ معلومات تک رسائی پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیے گئے استثنی کو خود ہٹایا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تنقید اور تعریف کرنے والے بتا دیں کیا دنیا میں کوئی ایسا فیصلہ ہوا ہے تو بتائیے۔ اگر ایسا فیصلہ نہیں ہوا تو سر اٹھا کر بتائیے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی بات ہے۔ بنیادی حقوق سب کے برابر ہوتے ہیں، صرف بے مقصد بات کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ اب شفافیت ہے ذرائع چھوڑیں خط لکھیں اور بتائیں یہ پوچھا تھا اور یہ بتایا گیا۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’ججز کے خلاف بےشمار الزامات لگتے ہیں اور وہ جواب نہیں دے پاتے۔ ہم نے سپریم جوڈیشل کونسل کے آرٹیکل پانچ میں ترمیم کی کہ کسی سپریم کورٹ/ہائی کورٹ کے جج پر الزام لگتا ہے تو وہ جواب دے سکتے ہیں۔‘

گذشتہ برس الیکشن کا فیصلہ اہم تھا

انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال اہم ترین فیصلوں میں انتخابات کا انعقاد بھی شامل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اختیارات سے تجاوز کیے بغیر انتخابات کیس کا 12 دن میں فیصلہ کیا۔ میرے دور میں کچھ اہم فیصلے بھی ہوئے ان میں ایک فیصلہ الیکشن کا بھی تھا۔

’نگران حکومت کے دوران الیکشن کی تاریخ پر مسئلہ بنا ہوا تھا۔ ہم نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیے بغیر تاریخ کے مسئلے کو حل کروایا۔ تاریخ طے ہونے کے بعد ہم نے فیصلہ دیا کہ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ لیکن مسئلہ ڈالنے والے مسئلہ ڈال دیتے ہیں اور پھر لاہور ہائی کورٹ سے ایک فیصلہ آیا، جس میں آر اوز کا نوٹیفکیشن معطل کیا گیا۔ ہم نے اس فیصلے کو راستے سے ہٹایا تا کہ الیکشن وقت پر ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصلوں پر تنقید کریں لیکن گالی دینا درست نہیں

چیف جسٹس نے کہا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی میرے دور میں پہلی مرتبہ ہوا کی کسی جج کو مس کنڈکٹ پر برطرف کیا گیا ہو۔ ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں جس کا اعتراف کرتے ہیں۔

’بھٹو ریفرنس کو سنا گیا اور اپنی رائے دی کی ان کے خلاف دیا گیا فیصلہ غلط تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو غلط طریقے سے نکالا گیا ان کی برطرفی کو بھی کالعدم قرار دیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم دوسروں کا احتساب کریں مگر اپنا محاسبہ نہ کریں تو دوسرے ہمارے فیصلوں کی قدر نہیں کریں گے۔ ہمارے اپنے جج پر الزامات لگے، کھلی عدالت میں ان کا کیس چلایا۔ ان جج صاحب کو سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف کیا۔‘

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر مور رکھے گئے تھے۔ چیف جسٹس کا موروں سے کیا تعلق ہے؟ پنجروں سے ان موروں کو رہائی دی۔ کہا جاتا ہے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ موروں کو جنگل میں ہی ناچنے دیا جائے تو اچھا ہے۔ ہم نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا فیصلہ بھی دیا۔‘

ایڈہاک ججزاس لیے لائے تاکہ مقدمات کی تعداد کم ہو

چیف جسٹس نے کہا کہ ’آج سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد پوری ہو چکی ہے۔ مقدمات میں تاریخ دینے کا رواج ختم کر دیا ہے۔ جج صاحبان سے درخواست ہے کیس جس دن لگے اس دن چلنا بھی چاہیے۔ ہم نے ایڈہاک ججز بھی لائے تاکہ مقدمات کی تعداد کم ہو۔ ایڈہاک ججز نے چھٹیوں میں کام کیا اور 245 مقدمات نمٹائے۔‘

مقدمات کی تاخیر سے سائلین ناامید ہوتے ہیں: اٹارنی جنرل

نئے عدالتی سال کے موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’نئے عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا بھی ایک موقع ہوتا ہے گذشتہ سال بھی کہا تھا جوڈیشل سسٹم میں اہم ترین وہ عام سائلین ہیں جو انصاف کیلئے رجوع کرتے ہیں۔

’سائلین کی امیدیں ٹوٹنے کی ذمہ داری نظام انصاف سے منسلک ہم تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے زیادہ سائلین کو کوئی اور چیز ناامید نہیں کرتی۔ فوجداری مقدمات میں لوگوں کی آزادی اور زندگیاں دائو پر لگی ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ ملزمان اور مجرمان کے مقدمات کی باری آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہ کر رہا ہونا بھی کسی سانحہ سے کم نہیں ہوتا۔‘

اٹارنی جنرل نے اپنی تقریر میں سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلے میں قیدیوں کے حالات کی بہترین عکاسی کی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان