غزہ جیسی اموات اور تباہی کہیں نہیں دیکھی: اقوام متحدہ سربراہ

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیریش نے پیر کو کہا ہے کہ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور اموات جیسی صورت حال کہیں نہیں دیکھی۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش آٹھ دسمبر 2023 کو نیویارک شہر میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں غزہ پر سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے پیر کو کہا ہے کہ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور اموات جیسی صورت حال کہیں نہیں دیکھی۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے سات سالہ دور میں ہونے والی اس بدترین تباہی اور اموات کا سلسلہ فوری طور پر رکنا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’یہ سوچنا ’غیر حقیقی‘ ہے کہ اقوام متحدہ غزہ کے مستقبل میں کردار ادا کر سکتی ہے، یا تو اس علاقے کا انتظام کر کے یا امن فوج فراہم کر کے، کیونکہ اسرائیل اقوام متحدہ کے کردار کو قبول کرنے کا امکان نہیں رکھتا۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کسی بھی فائر بندی کی حمایت کے لیے دستیاب رہے گی۔‘

انہوں نے اقوام متحدہ کے غزہ میں کسی بھی قسم کی فائر بندی کی نگرانی کرنے کی پیش کش کی ہے۔

 اقوام متحدہ کا مشرق وسطیٰ میں 1948 سے ایک فوجی نگرانی مشن جاری ہے، جسے یو این ٹی ایس او کے نام سے جانا جاتا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ’ہماری طرف سے، یہ ان مفروضوں میں سے ایک تھا جو ہم نے پیش کیا۔‘

انتونیو گوتیریش نے کہا کہ ’یقیناً بین الاقوامی برادری ہم سے جو بھی کہے گی ہم وہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فریقین اسے قبول کریں گے اور خاص طور پر کیا اسرائیل اسے قبول کرے گا۔‘

 غزہ پر اسرائیلی جارحیت 11 ماہ سے جاری ہے جبکہ حالیہ فائر بندی مذاکرات میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی تشدد نئی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے۔

 

فائر بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انتونیو گوتریس نے کہا: ’غزہ میں ہم جس سطح کے مصائب دیکھ رہے ہیں اس کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے میرے مینڈیٹ میں مثال نہیں ملتی۔

’میں نے اتنی اموات اور تباہی کبھی نہیں دیکھی جتنی ہم گذشتہ چند ماہ میں غزہ میں دیکھ رہے ہیں۔‘

فائر بندی سے آگے بڑھتے ہوئے انتونیو گوتیریش نے اس بات پر زور دیا کہ ’اسرائیل اور فلسطین کے دہائیوں پرانے تنازعے کا دو ریاستی حل نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ یہ واحد حل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ 50 لاکھ فلسطینی ایک ریاست میں بغیر کسی حقوق کے رہ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ’کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ہم ماضی میں جنوبی افریقہ کی طرح کے خیالات کو قبول کر سکتے ہیں؟‘

انتونیو گوتیریش نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ آپ دو لوگوں کو ایک ساتھ رکھ سکتے ہیں اگر وہ مساوات کی بنیاد پر نہیں ہیں اور اگر وہ احترام کی بنیاد پر نہیں ہیں۔

’لہٰذا اگر ہم مشرق وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں تو میرے خیال میں دو ریاستی حل ضروری ہے۔‘

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں اب تک 40 ہزار 900 سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔

اس تنازعے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے اور غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 90 فیصد کو متعدد بار بے گھر کیا ہے۔

امریکہ اور دیگر فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں لیکن نیتن یاہو، جو اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، نے دو ریاستی حل کے مطالبے کی مخالفت کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا