خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ملک میں حالیہ عسکریت پسندی کے واقعات کے تناظر میں بدھ کو تجویز پیش کی ہے کہ انہیں افغانستان وفد بھیجنے کی اجازت دی جائے، وہ خود ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں گے۔
بدھ کو پشاور میں بار کونسلز ایسوسی ایشنز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا: ’افغانستان کے پاس مجھے وفد بھیجنے دیں، افغان ہمارے پڑوسی ہیں، ہم ایک زبان بولتے ہیں اور ہماری 1200 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے۔
’مجھے ان سے بات کرنے دیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ پروا ہی نہیں ہے کیونکہ خون میرا بہہ رہا ہے، کیا میرا خون پانی ہے؟ کیا میرے لوگوں کا خون لال نہیں سفید ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میں کب تک برداشت کروں گا؟ میں یہاں اعلان کرتا ہوں کہ آپ کی اپنی پالیسی ہے تو اس کو اپنے پاس رکھیں، جس پالیسی کی وجہ سے میرے لوگ مر رہے ہیں۔
’میں خود افغانستان سے بات کروں گا، میں بحیثیت صوبہ بات کروں گا، وفد بھیج کر ملاقات کروں گا، ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کروں گا اور مسئلہ حل کروں گا، میں یہ جانیں بچاؤں گا کیونکہ یہ مجھ پر فرض ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ ’میں نے اللہ کو جواب دینا ہے۔ میں اللہ اور اپنے عوام کو جوابدہ ہوں، میں اس پر سمجھوتی نہیں کروں گا۔ آپ کو اچھا لگتا ہے، ویری گڈ۔ اچھا نہیں لگتا تو ویری ویری گڈ۔‘
پاکستان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں، جس کی کابل پر حکمران افغان طالبان تردید کرتے آئے ہیں۔
گذشتہ ماہ انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’افسوس یہ ہے کہ ہر کارروائی کا ذمہ دار افغانستان کو ٹھہرایا جاتا ہے، جس سے بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک میں جنگ کرے۔ ہم جنگ کو پسند نہیں کرتے اور کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ افغان سر زمین پاکستان یا کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہو۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر پاکستان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ ہمارے ساتھ شیئر کرے کہ کہاں پر انہیں افغانستان سے مسئلہ ہے، لیکن میڈیا پر الزامات لگانا عوام کے مابین نفرتیں پھیلاتا ہے اور اس سے بے اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے اور اس میں نقصان ہے کیونکہ ہم پاکستان سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔‘
وزیراعلیٰ کا بیان زہر قاتل اور وفاق پر حملہ: وزیر دفاع
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا بیان وفاق پرحملہ ہے اور کوئی صوبہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ آج وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا بیان آیا ہے۔۔۔ یہ ان کے چار روز پہلے کے خطاب کا تسلسل ہے، جس راستے پروہ چل رہے ہیں اوراپنی پارٹی کوچلانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ زہر قاتل ہے۔
’سافٹ ویئر ہم بھی اپ ڈیٹ کر سکتے ہیں‘
علی امین گنڈا پور نے اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے روا رکھے گئے سلوک پر بدھ کو حکومت اور اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’اگر پالیسی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی ہے تو سافٹ ویئر ہم بھی اپ ڈیٹ کر سکتے ہیں۔‘
آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں سنگجانی کے مقام پر جلسے اور پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاریوں کے معاملے کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ’جس جیل سپرنٹنڈنٹ نے کسی گرفتار شدہ شخص کو قانون توڑ کر رات کو کسی کے حوالے کیا، اسے جواب دینا ہوگا۔ سپرنٹنڈنٹ کو نام لینا پڑے گا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا: ’اگر تمہارا سافٹ ویئر وہاں سے اپ ڈیٹ ہوسکتا ہے تو تمہارا سافٹ ویئر یہاں بھی اپ ڈیٹ ہوسکتا ہے۔ اگر پالیسی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی ہے، تو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہم بھی کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ پاکستان کے شہری اور آزاد انسان ہیں اور اگر انہیں مناسب جواب نہیں ملتا تو وہ بلند آواز میں سوال کریں گے۔‘
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ چھ ماہ سے ایک وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کہہ رہے ہیں کہ ان پر ایک گھنٹے میں سات اضلاع میں ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جبکہ وہ وہاں موجود نہیں تھے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ’پھر جب میں للکاروں تو میری بات پسند نہیں آتی۔‘
سنگجانی جلسے کے بعد پیش آنے والی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا: ’پرسوں پتہ چلا کہ میں نے ایک ڈی ایس پی کی کنپٹی پر پستول رکھا ہے، میں آپ کو لکھ کر دے رہا ہوں کہ میں نے تو کوئی نیلی وردی والا بندہ دیکھا ہی نہیں ہے، پورے راستے میں آتے اور جاتے ہوئے میں نے اسلام آباد پولیس کی کوئی نیلی وردی نہیں دیکھی۔‘
ساتھ ہی انہوں نے نام لیے بغیر اسلام آباد پولیس کے ڈی ایس پی کو مخاطب کرکے کہا: ’جو یہ کہہ رہا ہے اور کروا رہا ہے، میں اس کا نام بھی اگلواؤں گا اور تم سے پوچھوں گا کہ تم نے کس کے کہنے پر یہ کام کیا ہے۔‘
’دو قوانین اور دو نظام نہیں چل سکتے‘
تقریب سے خطاب میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام افسوس ناک حد تک کمزور ہے اور اسے بہتر کرنے کے لیے وکلا برادری کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔‘ وکلا سے درخواست کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وہ ایسے کیس نہ لیں جن میں انصاف کی حق تلفی ہو اور انصاف اور میرٹ کے خلاف کسی کیس کا دفاع نہ کریں۔‘
بقول علی امین گنڈا پور: ’قانون کی حقیقی حکمرانی کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور جزا و سزا کا منصفانہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے آئین شکنی کا سلسلہ جاری ہے۔‘
وزیراعلیٰ امین گنڈا پور نے واضح کیا کہ دو قوانین اور دو نظام نہیں چل سکتے۔ ’سب کے لیے ایک ہی قانون اور ایک نظام ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جابر حکمران کے خلاف آواز بلند کرنا جہاد ہے اور اگر میں ایسا کرتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ میں لوگوں کو اکسا رہا ہوں۔ میں اکسا نہیں رہا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ میرا فرض ہے لوگوں کو بتانا، چاہے وہ عمل کریں یا نہ کریں۔‘
بقول وزیراعلیٰ: ’کوئی ناراض ہو جاتا ہے کہ آپ ہمارا نام نہ لیں، میں جھوٹ بولوں؟ میں چاپلوسی کروں آپ کی؟ میں منافق بن جاؤں؟ میں نہ بتاؤں کہ آپ کے اقدامات سے نفرت پھیل رہی ہے؟ میں نہ بتاؤں کے آپ جو کام کر رہے ہیں، یہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے؟ میں آپ کا غلام نہیں ہوں، میں آزاد ہوں، میری آزادی کوئی نہیں چھین سکتا۔ ہاں! میں اپنی اصلاح کے لیے تیار ہوں منافت کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج صوبے کے اندر چلینجز ان لوگوں کے اقدامات کی وجہ سے آئے، جنہوں نے بہترین پولیس سے ایسے کام کروائے جو وہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘
علی امین گنڈا پور نے قومی احتساب بیورو (نیب) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’نیب انتقام کے لیے بنی ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’کوئی شرم، حیا یا لحاظ باقی نہیں رہا۔ جو کچھ میں دل میں رکھتا ہوں، وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بھی نہیں بتاتا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ بانی پی ٹی آئی کے دل میں نفرت پیدا ہو، کیوں کہ نفرت پیدا ہونے سے نقصان میرے ملک، میری قوم کا ہے۔‘