پاکستان اور انڈیا کے درمیان ستمبر1965 میں 17 روز تک جنگ جاری رہی۔ سلامتی کونسل نے 20 ستمبر کو قرار داد نمبر 211 کے ذریعے دونوں ملکوں سے فوری جنگ بند کا مطالبہ کیا تھا، جس پر فریقین نے رضا مندی ظاہر کر دی۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی اور مستقبل کے تعلقات کے فریم ورک کا معاہدہ 10 جنوری 1966 کو تاشقند میں ہوا تھا، جو روسی ثالثی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس جنگ میں پاکستان کا ساتھ کن ممالک نے دیا تھا اور پاکستان کے دفاعی اتحادی امریکہ نے اس وقت پاکستان کا ساتھ کیوں نہیں دیا تھا؟ ان سوالوں کے جوابات میں تاریخ کے طالب علموں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔
ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی کتاب The First Round: Indo-Pakistan War, 1965 جو پہلی بار 1979 میں چھپی تھی، میں اس حوالے سے بڑی اہم معلومات شامل ہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان جنگ ستمبر کے وقت پی آئی اے کے چیئرمین کے طور کام کر رہے تھے اور جنگ شروع ہونے سے کچھ ماہ قبل ہی وہ پی اے ایف کے سربراہ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے تھے۔
جب جنگ شروع ہوئی اس وقت ایئر فورس کی قیادت ایئر مارشل نور خان کے پاس تھی مگر چونکہ پاکستان ایئر فورس کی تشکیل اور تربیت میں ایئر مارشل (ر) اصغر خان کا کلیدی کردار تھا اس لیے جنگ شروع ہوتے ہی ان کی خدمات حاصل کی گئیں کیونکہ کئی دوست ممالک کی ایئر فورس کے سربراہان سے ان کے گہرے تعلقات استوار تھے۔ اصغر خان نے جنگ کے دوران جن چار ممالک کے دورے کیے اس کی تفصیلات انہوں نے اپنی کتاب میں دی ہیں۔
چین کو انڈین سرحد پر فوج بھیجنے کی درخواست
صدر ایوب کا خط لے کر ایئر مارشل (ر) اصغر خان نو ستمبر 1965 کو چین روانہ ہوئے۔ اگلے دن چینی وزیراعظم چو این لائی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ چینی وزیراعظم کو پاکستان نے جنگ میں درکار اشیا کی ایک فہرست دی جن میں جنگی جہاز، اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اور دیگر اسلحہ و گولہ بارود بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی پاکستان نے یہ درخواست بھی کر دی کہ یہ سامان براستہ انڈونیشیا روانہ کیا جائے۔
چینی وزیراعظم بڑے حیران ہوئے کہ اتنا لمبا چکر کیوں کاٹا جائے اور جنگی سازو سامان براستہ قراقرم براہِ راست کیوں نہیں بھیجا جا سکتا۔ چینی وزیراعظم کو پاکستان کی جنگی حکمت عملی پر بھی اعتراض تھا اور ان کا مؤقف تھا کہ جنگ کو مدافعانہ نہیں جارحانہ انداز میں لڑا جائے۔
پاکستان نے جنگی سازو سامان کے ساتھ دوسرا مطالبہ یہ کیا کہ انڈیا پر دباؤ بڑھانے کے لیے چین اپنی فوج انڈین سرحد پر اس علاقے میں بڑھا دے جہاں 1962میں چین اور انڈیا کی جنگ ہو چکی تھی مگر چو این لائی نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں صدر ایوب سے براہ راست ملاقات کرنا چاہیں گے۔ ایئر مارشل اصغر خان کے بقول صدر ایوب نے اس تجویز پر عمل نہیں کیا۔
بعض ذرائع کہتے ہیں کہ صدر ایوب نے جنگ کے دوران اپنے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ چین کا خفیہ دورہ کیا تھا تاہم اس دورے کی تفصیلات کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔
’یہاں سے ہر وہ چیز لے جاؤ، جو پاکستان کے کام آ سکتی ہے‘
ایئر مارشل (ر) اصغر خان بیجنگ سے جکارتہ پہنچے جہاں ایک فوجی اڈے پر ان کا استقبال ان کے دوست اور انڈونیشئن ایئر فورس کے سربراہ عمر دھانی نے کیا۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کو صدر ایوب کا خط دیا اور کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں انڈونیشیا ہماری کیا مدد کرے گا؟ جس پر سوئیکارنو نے کہا کہ ’آپ کی مشکل گھڑی ہماری مشکل گھڑی ہے۔ کل ہی میں نے اپنی وار کونسل سے میٹنگ کی ہے، جس میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان کو وہ سب کچھ دیں گے جو اس کی ضرورت ہے۔ پاکستان پر حملہ انڈونیشیا پر حملہ ہے۔ آپ یہاں سے ہر وہ چیز لے جائیں جو جنگ میں آپ کو کام آ سکتی ہے۔ آج کل ہمارے ملائیشیا سے تعلقات اچھے نہیں ہیں اس لیے کسی ہنگامی صورت حال میں ہمارے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ رہنے دیں۔‘
ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے جنگی جہازوں کا مطالبہ کیا۔ اس وقت انڈونیشیا کے پاس ایک درجن MIG-21 تھے، جن میں سے آٹھ جاوا میں سرحدوں کی حفاظت پر تعینات تھے۔ چار باقی تھے۔ انڈونیشیا نے چاروں پیش کر دیے۔ انڈونیشیا کے نیول چیف مارتا ڈیناتا نے پیشکش کی کہ اگر پاکستان چاہے تو ہم انڈیا کے خلاف جزائر انڈیمان کا محاذ بھی کھول سکتے ہیں۔ نیول کمانڈر نے میزائل کشتیاں اور آبدوزیں بھی پاکستان روانہ کر دیں، جو روسی ساختہ تھیں اور روس نے اس شرط پر دی تھیں کہ انہیں کسی دوسرے ملک کو نہیں دیا جائے گا۔
ترکی سے پی آئی اے کے جہازوں میں گولہ بارود آتا تھا
پاکستان کا ملٹری ہارڈ ویئر امریکی تھا جبکہ اسے انڈونیشیا اور چین سے جو اسلحہ مل رہا تھا وہ روسی ساختہ تھا، جس کے استعمال میں کئی طرح کے چیلنجز درپیش تھے۔ اس لیے پاکستان کی ترجیح تھی کہ ترکی سے مدد کی درخواست کی جائے کیونکہ اس کے پاس امریکی ساختہ اسلحہ تھا۔ جب ایئر مارشل (ر) اصغر خان ترکی پہنچے تو ترک صدر رگرسل سے ملے جنہوں نے ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا۔ مگر وزیراعظم ارگپلو نے اس سلسلے میں ترکی کی مجبوریاں بتاتے ہوئے کہا کہ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور وہ امریکہ اور نیٹو کی اجازت کے بغیر کوئی بڑا ہتھیار کسی دوسرے ملک کو نہیں دے سکتا، تاہم اسلحہ اور گولہ بارود وغیرہ جتنا چاہیے لے جاؤ۔ اس کے بعد پی آئی اے کے جہاز اگلے کئی دن تک ترکی سے اسلحہ اور گولہ بارود لے کر آتے رہے۔
ایران نے اپنے اسلحہ خانوں کی چابیاں پیش کر دیں
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران بھی نیٹو کا رکن تھا اس لیے اس کی بھی وہی مجبوریاں تھیں جو ترکی کی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے بعد ترکی اور ایران کے وزرائے خارجہ پاکستان اور انڈیا سے جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے تھے جس پر صدر ایوب ناراض بھی تھے کہ ایران اور ترکی انڈیا کو جارح قرار دے کر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس پر شاہ ایران نے کہا کہ ہماری کچھ مجبوریاں ہیں جن کا صدر ایوب کو پتہ ہوتا تو وہ گلہ نہ کرتے۔ تاہم انہوں نے اپنے کمانڈر کو بلا کر کہا کہ پاکستان کی تمام ضروریات پوری کی جائیں چاہے ایرانی سٹورز میں کچھ باقی نہ رہے۔ شاہ نے ایئر مارشل (ر) اصغر خان سے ان اشیا کی فہرست مانگی، جو پاکستان کی ضرورت تھی۔ انہوں نے فہرست دیکھ کر کہا کہ وہ امریکہ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے تاکہ مشکل کی اس گھڑی میں امریکہ بھی پاکستان کی مدد کرے۔
امریکہ نے پاکستان کی مدد کیوں نہیں کی
امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ’آفس آف دی ہسٹورین‘ میں موجود ایک دستاویز کے مطابق 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے بارے میں امریکہ کو خدشہ تھا کہ اس سے خطے میں امریکہ اور روس کے درمیان رسہ کشی شروع ہو سکتی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو انڈیا کے اس کردار پر شدید تحفظات تھے جو وہ غیر جانب دار ممالک کی تحریک میں ادا کر رہا تھا۔ 1962 کی چین انڈیا جنگ، جس میں انڈیا کو شکست فاش ہوئی تھی، کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے انڈیا کو فوجی امداد دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات شروع ہی سے اچھے جا رہے تھے کیونکہ امریکہ روس کے خلاف سیٹو اور سینٹو میں پاکستان کے کردار کو اہم سمجھتا تھا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کیا گیا، جو ان دنوں میں انڈیا کے مقابلے پر بہت کم تھیں۔
اس عرصے میں امریکہ اور برطانیہ دونوں نے پاکستان کی مدد کی۔ جب پاکستان نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کیں تو انڈیا نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھایا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 211 کے ذریعے جب یہ جنگ بند ہوئی تو امریکہ نے پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دی۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اس پابندی کا سب سے زیادہ اثر اس پر پڑا کیونکہ وہ پہلے ہی عسکری لحاظ سے کافی کمزور تھا۔
ایک دوسرا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ امریکہ اس دوران ویتنام میں مصروف تھا اور وہ کسی نئے محاذ کے بارے میں ہرگز تیار نہیں تھا۔ پاکستان نے اس جنگ کے بارے میں امریکہ کو اعتماد میں نہیں لیا تھا ۔ پاکستانی وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا جھکاؤ چین کی طرف تھا۔ دوسری جانب چین انڈیا جنگ کے بعد امریکہ نے انڈیا کو فوجی امداد دینا شروع کر دی تھی، جس پر پاکستان کو شدید تحفظات تھے۔ صدر ایوب نے جولائی 1964 میں امریکی صدر لنڈن بی جانسن کو ایک خط لکھ کر شدید احتجاج بھی کیا تھا کہ پاکستان سیٹو اور سینٹو معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لے گا، جس پر جانسن نے جواب دیا تھا کہ اگر پاکستان نے چین کے ساتھ دوستی جاری رکھی تو امریکہ بھی اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گا۔
صدر ایوب اپریل 1965 میں ماسکو کا دورہ بھی کر چکے تھے، جس میں روس سے درخواست کی گئی تھی کو وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے انڈیا پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ بعد میں جب شاستری نے ایوب کے بعد روس کا دورہ کیا تو روسی حکام نے ان سے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ متنازع امور کو حل کریں۔ امریکہ جو اس وقت تک پاکستان کو آج کی ڈالر ویلیو کے حساب سے تین ارب ڈالر کا اسلحہ دے چکا تھا وہ صدر ایوب کے دورہ روس پر ناراض بھی تھا۔ اس طرح جب ستمبر کی جنگ ہوئی تو پاکستان کے تعلقات اپنے قریبی اتحادی امریکہ سے خوش کن نہیں تھے۔