پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعے کو کہا ہے کہ غزہ کے حالات عالمی برادری کی ’تضحیک‘ اور عالمی یکجہتی کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سمٹ آف دی فیوچر کی پہلی ورچوئل نشست کے دوران غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی حملوں کے حوالے سے خطاب میں بات کی۔
اس سے قبل بدھ کو اسرائیل نے ایک بار پھر ایک سکول کو نشانہ بنایا اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام الجونی سکول کے کچھ حصے کو تباہ کر دیا۔ اس تناظر میں پاکستان کے وزیر اعظم نے عالمی پلیٹ فارم پر خیالات کا اظہار کیا۔
فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے نے کہا کہ سکول پر دو اسرائیلی حملوں میں اس کے عملے کے چھ ارکان کی جان گئی ہے جبکہ حالیہ حملے میں 18 اموات ہوئیں۔ اسرائیلی حملے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔
وزیراعظم شریف نے اپنے ورچوئل خطاب میں کہا: ’ہم آج عالمی چیلنجز اور بڑھتے ہوئے تنازعات کے دور میں ’ہم‘ کے تصور کو مستقل طور پر نقصان پہنچانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اجتماعی طور پر ’ہم‘ کا تقاضا بنتا ہے۔ غزہ کے لوگوں کی حالت اس ’ہم‘ کا تمسخر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتا ہے جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ شرائط اور 1967 کی سرحدوں کے مطابق ہو اور القدس الشریف اس کا دارالحکومت ہو۔
غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے آغاز کے بعد سے پاکستان نے اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو بار بار اٹھایا اور عالمی طاقتوں اور کثیر جہتی اداروں سے اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو رکوانے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان نے فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان بھی بھیجا ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ عالمی مسائل کا موجودہ منظرنامہ ممالک کے درمیان اتحاد کو متاثر کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بڑے مسائل کا سامنا کر رہی ہے جن کی وجہ سے بین الاقوامی تعلقات اور تعاون پر دباؤ پڑ رہا ہے۔
وزیر کا کہنا تھا کہ ’یہ ’ہم‘ غربت میں اضافے، بڑھتی ہوئی عدم مساوات، عدم برداشت، دہشت گردی، غیر قانونی غیر ملکی قبضے اور ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے میں متعصبانہ رویے کے ماحول میں داغدار ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی فریم ورک میں بڑی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اقتصادی طور پر کمزور ممالک کے لیے پائیدار ترقیاتی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
’اس کے لیے آسان شرائط پر سرمائے کی فراہمی، بڑھتی ہوئی رسمی ترقیاتی معاونت، اور کثیر جہتی ترقیاتی بینکوں سے زیادہ قرضوں کی ضرورت ہے۔‘