ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ نئی حکومت اپنے روایتی دشمن امریکہ کے ساتھ ’تناؤ مینج‘ کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ اس پر دباؤ کم ہو اور سخت پابندیاں ختم کرنے میں مدد مل سکے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق انہوں نے جمعے کی رات سرکاری ٹیلی وژن پر ایک انٹرویو میں کہا، ’ہم نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان تناؤ اور دشمنی کو مینیج کرنا ہے۔‘
ایران اور امریکہ کے درمیان 1980، جس سال اسلامی انقلاب نے شاہ محمد رضا کا تختہ الٹا تھا، کے بعد سے کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہونے والے تاریخی معاہدے کے تحت ایران کو اپنا جوہری پروگرام روکنے کے بدلے پابندیوں میں نرمی دی گئی تھی۔
لیکن 2018 میں امریکہ کی جانب سے یک طرفہ طور پر دستبرداری کے بعد یہ معاہدہ ٹوٹ گیا اور تناؤ میں اضافہ ہوا۔
2015 کے معاہدے کے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک عراقچی نے کہا کہ ’خارجہ پالیسی میں، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس دشمنی کی قیمت زیادہ سے زیادہ کم کریں اور قوم پر اس کا دباؤ گھٹائیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں ’ہمسایہ ممالک‘ کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک، چین اور روس سمیت دیگر ممالک کو ترجیح دی جائے گی۔
عراقچی نے حالیہ برسوں میں ایران کے خلاف ’جارحانہ پالیسیاں اختیار کرنے‘ پر یورپی ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ وہ صرف اس وقت ’ترجیح بنیں‘ گے جب وہ ’اپنی غلط اور معاندانہ پالیسیوں کو ترک کریں گے۔‘
انٹرویو کے دوران وزیر خارجہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ تہران ’کسی بھی صورت‘ میں مزاحمتی فورسز کے محور کی غیر متزلزل حمایت کرتا ہے۔
عراقچی اس وقت ایران کے نئے وزیر خارجہ بنے جب بدھ کو ایران کی پارلیمان نے صدر مسعود پزشیکیان کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی کابینہ کے حق میں ووٹ دیا۔
ایران کے اصلاح پسند کیمپ میں سے کچھ نے صدر کی نئی کابینہ میں خواتین کی ناکافی تعداد پر تنقید کی ہے۔
منگل کو انہوں نے شینا انصاری کو اپنی نائب صدر برائے ماحولیات نامزد کیا جو 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد اس عہدے پر فائز ہونے والی تیسری خاتون ہیں۔