امریکہ میں گرفتار پاکستانی شہری آصف مرچنٹ نے ایران کے ساتھ مبینہ روابط اور ایرانی پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈر کی موت کا بدلہ لینے کے لیے ایک امریکی سیاست دان کے قتل کی سازش کا اعتراف جرم کرنے سے انکار دیا۔
روئٹرز کے مطابق 46 سالہ آصف مرچنٹ نے پیر کو بروکلین میں امریکی مجسٹریٹ جج رابرٹ لیوی کے سامنے پیشی کے دوران بین الاقوامی سرحدوں کے پار ’دہشت گردی‘ کی کوشش اور ’اجرت لے کر قتل‘ کے الزام میں بھی ’بے گناہی‘ کا دعویٰ کیا ہے۔
جج نے حکم دیا کہ مرچنٹ کو مقدمے کی سماعت تک حراست میں رکھا جائے۔
وفاقی استغاثہ کے مطابق ’مرچنٹ نے ایران میں کچھ وقت گزارا اور پھر اس سازش کے لیے لوگوں کو بھرتی کرنے کے مقصد سے امریکہ کا سفر کیا۔‘
استغاثہ کا کہنا ہے کہ ’مرچنٹ نے ایک انڈر کور ایجنٹ کو بتایا کہ وہ ایک ہدف سے دستاویزات چرانے اور امریکہ میں مظاہروں کا اہتمام کرنے کا بھی ارادہ رکھتا تھے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صورت حال سے واقف ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ملزم نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ممکنہ ہدف کے طور پر نامزد کیا لیکن سابق صدر کے قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی۔‘
عدالتی دستاویزات میں مبینہ ہدف کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی حملہ کیا گیا۔ بطور ٹرمپ نے 2020 میں سلیمانی پر ڈرون حملے کی منظوری دی۔
یہ اشارے نہیں ملے کہ مرچنٹ کا اتوار کو ٹرمپ کے فلوریڈا گالف کورس پر ہونے والے مبینہ قتل کے منصوبے یا جولائی میں پنسلوینیا میں رپبلکن صدارتی امیدوار کے جلسے پر فائرنگ سے کوئی تعلق تھا۔
اس سے قبل 11 ستمبر کو امریکی محکمہ انصاف کے جاری کردہ بیان کے مطابق ایران سے مبینہ روابط رکھنے والے ایک پاکستانی شہری آصف رضا مرچنٹ پر کسی امریکی عہدیدار کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں امریکہ میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
امریکی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر 11 ستمبر کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق: ’گذشتہ روز آصف مرچنٹ پر امریکی سرزمین پر کسی سیاست دان یا امریکی سرکاری عہدیدار کو قتل کرنے کی سازش کے تحت، ملکی حدود سے ماورا دہشت گردی کا عمل انجام دینے اور کرائے کے قاتل کے طور پر کام کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا۔‘
مزید کہا گیا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی بھی حملے سے پہلے ہی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔‘
امریکہ میں پاکستانی شہری کی گرفتاری پر پاکستانی دفتر خارجہ نے اگست کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں امریکی حکام سے رابطے میں ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا: ’ہم نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں۔ ہم امریکی حکام سے رابطے میں ہیں اور مزید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے امریکی حکام کے بیان نوٹ کیے ہیں۔ اس معاملے کی ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ اپنا باضابطہ ردعمل دینے سے پہلے ہمیں اس شخص کے پس منظر اور ماضی کے بارے میں بھی یقینی طور پر جاننے کی ضرورت ہے۔‘
امریکی محکمہ انصاف کی چھ اگست کو جاری پریس ریلیز کے مطابق بروکلین میں 46 سالہ آصف مرچنٹ عرف آصف رضا مرچنٹ پر امریکی سر زمین پر ایک سیاست دان یا امریکی سرکاری عہدے دار کو قتل کرنے کی مبینہ منصوبہ بندی کے تحت کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی بھی حملے سے پہلے منصوبے کو ناکام بنا دیا اور اب آصف مرچنٹ وفاقی تحویل میں ہیں۔
آصف مرچنٹ پر الزامات کی تفصیل
امریکی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تفصیل کے مطابق: ’اپریل 2024 میں، ایران میں وقت گزارنے کے بعد، آصف مرچنٹ پاکستان سے امریکہ پہنچے اور ایک ایسے شخص سے رابطہ کیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اس منصوبے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔
اس شخص نے آصف مرچنٹ کے طرز عمل کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی اور ایک خفیہ ذریعہ (Confidential Source) یعنی سی ایس بن گیا۔
’جون کے اوائل میں آصف مرچنٹ نے نیو یارک میں سی ایس سے ملاقات کی اور قتل کی سازش کی وضاحت کی۔ آصف مرچنٹ نے سی ایس کو بتایا کہ ان کے پاس سی ایس کے لیے جو کام تھا، وہ ایک بار کا کام نہیں تھا اور جاری رہے گا۔ اس کے بعد مرچنٹ نے اپنے ہاتھ سے ’فنگر گن‘ کا اشارہ کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قتل کرنے کے متعلق کام تھا۔
’آصف مرچنٹ نے مزید کہا کہ مطلوبہ متاثرین کو ’یہاں نشانہ بنایا جائے گا‘ یعنی امریکہ میں۔ انہوں نے سی ایس کو ہدایت کی کہ وہ ان افراد کے ساتھ ملاقاتوں کا انتظام کرے جن کی خدمات آصف مرچنٹ ان کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے حاصل کرسکتے ہیں۔
’آصف مرچنٹ نے وضاحت کی کہ ان کے منصوبے میں متعدد مجرمانہ منصوبے شامل تھے: (1) ہدف کے گھر سے دستاویزات یا یو ایس بی ڈرائیوز چوری کرنا، (2) احتجاج کی منصوبہ بندی کرنا اور (3) کسی سیاست دان یا سرکاری افسر کا قتل۔
’اس ملاقات میں آصف مرچنٹ نے ممکنہ قتل کے منظرنامے کی منصوبہ بندی شروع کی اور سی ایس سے سوال کیا کہ وہ مختلف حالات میں کسی ہدف کو کیسے ماریں گے۔ خاص طور پر، آصف مرچنٹ نے سی ایس سے یہ وضاحت کرنے کے لیے کہا کہ مختلف منظرناموں میں ایک ہدف کیسے مرے گا۔ انہوں نے سی ایس کو بتایا کہ اس شخص کے ’چاروں طرف سکیورٹی ہوگی۔‘
’آصف مرچنٹ نے کہا کہ یہ قتل ان کے امریکہ چھوڑنے کے بعد ہوگا اور وہ کوڈ ورڈز کا استعمال کرتے ہوئے بیرون ملک سے سی ایس کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ سی ایس نے پوچھا کہ کیا مرچنٹ نے اپنے ملک میں نامعلوم ’پارٹی‘ سے بات کی تھی، جس کے ساتھ وہ کام کر رہے تھے۔
’آصف مرچنٹ نے جواب دیا کہ انہوں نے بات کی ہے اور ملک والی پارٹی نے ان سے کہا کہ وہ منصوبے کو ’حتمی شکل‘ دیں اور امریکہ چھوڑ دیں۔
’جون کے وسط میں آصف مرچنٹ نے مبینہ قاتلوں سے ملاقات کی، جو درحقیقت نیو یارک میں امریکی قانون نافذ کرنے والے خفیہ افسران (یو سی) تھے۔ انہوں نے یوسیز کو کہا کہ وہ ان سے تین کام لینا چاہتے ہیں: دستاویزات کی چوری، سیاسی ریلیوں میں احتجاج کا انتظام کرنا اور ان کے لیے ایک ’سیاسی شخص‘ کو قتل کرنا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آصف مرچنٹ نے بتایا کہ ان کے امریکہ چھوڑنے کے بعد اگست کے آخری ہفتے یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں کس کو قتل کرنا ہے، اس بارے میں ہٹ مین کو ہدایات ملیں گی۔
’21 جون کو آصف مرچنٹ نے نیویارک میں یو سیز سے ملاقات کی اور انہیں پانچ ہزار ڈالر ایڈوانس ادا کیے۔
’آصف کی جانب سے یو سیز کو پانچ ہزار ڈالر ادا کرنے کے بعد ایک یو سی نے کہا کہ ’اب ہم پابند ہیں‘ جس پر مرچنٹ نے ’ہاں‘ میں جواب دیا۔ اس کے بعد یو سی نے کہا کہ ’اب ہم جانتے ہیں کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ ہم یہ کریں گے، جس پر مرچنٹ نے جواب دیا ’ہاں، بالکل۔‘
’مرچنٹ نے اس کے بعد جہاز کے انتظامات کیے اور جمعہ 12 جولائی 2024 کو امریکہ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔ 12 جولائی کو قانون نافذ کرنے والے ایجنٹوں نے مرچنٹ کو ملک چھوڑنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا تھا۔
’آصف مرچنٹ نے بتایا کہ ان کی ایک بیوی اور بچے ایران میں ہیں اور ایک بیوی اور بچے پاکستان میں ہیں۔ ایف بی آئی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘
پریس ریلیز کے مطابق نیو یارک کے مشرقی ضلع کے لیے اسسٹنٹ امریکی اٹارنی سارہ کے ونک، گلبرٹ رین اور ڈگلس پراوڈا اور نیشنل سکیورٹی ڈویژن کے انسداد دہشت گردی سیکشن کے ٹرائل اٹارنی ڈیوڈ سمتھ اور جوشوا شیمپین اس مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں۔
مجرمانہ شکایت محض ایک الزام ہے اور تمام مدعا علیہان کو اس وقت تک بے گناہ سمجھا جاتا ہے جب تک کہ عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے۔