امریکی شخصیت کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام، پاکستانی پر فرد جرم عائد

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ایران سے مبینہ روابط رکھنے والے ایک پاکستانی شہری آصف رضا مرچنٹ پر کسی امریکی عہدیدار کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں امریکہ میں بدھ کو فرد جرم عائد کر دی گئی۔

چھ اگست 2024 کو امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے جاری کی گئی آصف مرچنٹ کی تصویر (امریکی محکمہ انصاف/ روئٹرز)

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ایران سے مبینہ روابط رکھنے والے ایک پاکستانی شہری آصف رضا مرچنٹ پر کسی امریکی عہدیدار کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں امریکہ میں بدھ کو فرد جرم عائد کر دی گئی۔

 محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر 11 ستمبر کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق: ’گذشتہ روز آصف مرچنٹ پر امریکی سرزمین پر کسی سیاست دان یا امریکی سرکاری عہدیدار کو قتل کرنے کی سازش کے تحت، ملکی حدود سے ماورا دہشت گردی کا عمل انجام دینے اور کرائے کے قاتل کے طور پر کام کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا۔‘

مزید کہا گیا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی بھی حملے سے پہلے ہی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔‘

بیان کے مطابق آصف مرچنٹ کو جولائی 2024 میں گرفتار کرکے ان پر مقدمہ درج کیا گیا۔ انہیں حراست میں لینے کا حکم دیا گیا تھا اور فی الحال وہ وفاق کی تحویل میں ہیں۔

اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل میرک بی گارلینڈ نے کہا: ’محکمہ انصاف ہمارے ملک کے سرکاری عہدیداروں کو نشانہ بنانے اور ہماری قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی ایران کی کوششیں برداشت نہیں کرے گا۔  جیسا کہ آصف مرچنٹ کے خلاف دہشت گردی اور قتل کے الزامات سے ظاہر ہوتا ہے، ہم ان لوگوں کا احتساب جاری رکھیں گے جو امریکی شہریوں کے خلاف ایران کی مہلک سازش کو انجام دینے کی کوشش کریں گے۔‘

دوسری جانب ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ورے کا کہنا تھا: ’یہ خطرناک قتل کی سازش مبینہ طور پر ایک پاکستانی شہری نے تیار کی تھی، جن کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور یہ بالکل ایرانی حکومت کی حکمت عملی کے مطابق ہے۔ کسی سرکاری عہدیدار یا کسی بھی امریکی شہری کو قتل کرنے کی غیر ملکی ہدایت پر کی جانے والی سازش ہماری قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے اور ایف بی آئی کی پوری طاقت اور وسائل سے اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔ امریکیوں کو دہشت گردوں سے بچانا ہماری اولین ترجیح ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چھ اگست 2024 کو جب آصف مرچنٹ کی امریکہ میں گرفتاری کی خبر سامنے آئی تھی تو پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے واشنگٹن سے رابطے میں ہیں۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا تھا: ’ہم نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں۔ ہم امریکی حکام سے رابطے میں ہیں اور مزید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے امریکی حکام کے بیان نوٹ کیے ہیں۔ اس معاملے کی ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ اپنا باضابطہ ردعمل دینے سے پہلے ہمیں اس شخص کے پس منظر اور ماضی کے بارے میں بھی یقینی طور پر جاننے کی ضرورت ہے۔‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس سے قبل رپورٹ کیا تھا کہ عدالتی دستاویزات میں آصف مرچنٹ کے کسی بھی ممکنہ ہدف کی نشاندہی نہیں کی گئی، تاہم امریکی حکام نے جولائی میں اعتراف کیا تھا کہ ایران کی جانب سے سابق صدر اور رپبلکن صدارتی ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی کو لاحق خطرے کے پیش نظر پنسلوانیا میں ہونے والی ریلی سے چند روز قبل اضافی سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔ اس ریلی میں ٹرمپ ایک مسلح شخص کی گولی سے زخمی ہوئے تھے۔

قانون نافذ کرنے والے ایک عہدیدار نے کہا کہ 13 جولائی کو پنسلوانیا کے ایک 20 سالہ شخص کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کا ایران کی دھمکی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور آصف مرچنٹ کی گرفتاری کا ٹرمپ کے قتل کی کوشش سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ کے حلف نامے سے پتہ چلتا ہے کہ آصف مرچنٹ کے ذہن میں ٹرمپ جیسے موجودہ یا سابق اعلیٰ سطح کے عہدے دار تھے۔

امریکی حکام کئی سالوں سے خبردار کرتے رہے ہیں کہ ایران 2020 میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ اس حملے کا حکم ٹرمپ نے اس وقت دیا تھا جب وہ صدر تھے۔ اس کے بعد سے امریکی حکومت نے ٹرمپ انتظامیہ کے متعدد عہدیداروں کی سکیورٹی کے لیے رقم ادا کی اور 2022 میں محکمہ انصاف نے بولٹن کے قتل کی ناکام سازش میں ملوث ایک ایرانی کارکن شہرام پورصافی، جو ابھی تک مفرور ہیں، پر فرد جرم عائد کی تھی، جن کے حوالے سے محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ انہوں نے جان بولٹن کو قتل کرنے کے لیے امریکہ میں ایک شخص کو تین لاکھ ڈالر ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔

آصف مرچنٹ کی گرفتاری کے معاملے پر اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے اگست میں کہا تھا کہ ’اسے امریکی حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔‘

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں مشن نے کہا تھا: ’لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ طریقہ کار قاسم سلیمانی کے قاتل کا پیچھا کرنے کی ایرانی حکومت کی پالیسی کے برخلاف ہے۔‘

آصف مرچنٹ پر الزامات کی تفصیل

شکایت میں شامل الزامات اور متعلقہ عوامی طور پر دائر کردہ عدالتی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ نے امریکی سرزمین پر ایک سیاست دان یا امریکی حکومت کے عہدیدار کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔

امریکی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تفصیل کے مطابق: ’اپریل 2024 میں، ایران میں وقت گزارنے کے بعد، آصف مرچنٹ پاکستان سے امریکہ پہنچے اور ایک ایسے شخص سے رابطہ کیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اس منصوبے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ اس شخص نے آصف مرچنٹ کے طرز عمل کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی اور ایک خفیہ ذریعہ (Confidential Source) یعنی سی ایس بن گیا۔

’جون کے اوائل میں آصف مرچنٹ نے نیو یارک میں سی ایس سے ملاقات کی اور قتل کی سازش کی وضاحت کی۔ آصف مرچنٹ نے سی ایس کو بتایا کہ ان کے پاس سی ایس کے لیے جو کام تھا، وہ ایک بار کا کام نہیں تھا اور جاری رہے گا۔ اس کے بعد مرچنٹ نے اپنے ہاتھ سے ’فنگر گن‘ کا اشارہ کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قتل کرنے کے متعلق کام تھا۔

’آصف مرچنٹ نے مزید کہا کہ مطلوبہ متاثرین کو ’یہاں نشانہ بنایا جائے گا‘ یعنی امریکہ میں۔ انہوں نے سی ایس کو ہدایت کی کہ وہ ان افراد کے ساتھ ملاقاتوں کا انتظام کرے جن کی خدمات آصف مرچنٹ ان کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے حاصل کرسکتے ہیں۔

’آصف مرچنٹ نے وضاحت کی کہ ان کے منصوبے میں متعدد مجرمانہ منصوبے شامل تھے: (1) ہدف کے گھر سے دستاویزات یا یو ایس بی ڈرائیوز چوری کرنا، (2) احتجاج کی منصوبہ بندی کرنا اور (3) کسی سیاست دان یا سرکاری افسر کا قتل۔

’اس ملاقات میں آصف مرچنٹ نے ممکنہ قتل کے منظرنامے کی منصوبہ بندی شروع کی اور سی ایس سے سوال کیا کہ وہ مختلف حالات میں کسی ہدف کو کیسے ماریں گے۔ خاص طور پر، آصف مرچنٹ نے سی ایس سے یہ وضاحت کرنے کے لیے کہا کہ مختلف منظرناموں میں ایک ہدف کیسے مرے گا۔ انہوں نے سی ایس کو بتایا کہ اس شخص کے ’چاروں طرف سکیورٹی ہوگی۔‘

’آصف مرچنٹ نے کہا کہ یہ قتل ان کے امریکہ چھوڑنے کے بعد ہوگا اور وہ کوڈ ورڈز کا استعمال کرتے ہوئے بیرون ملک سے سی ایس کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ سی ایس نے پوچھا کہ کیا مرچنٹ نے اپنے ملک میں نامعلوم ’پارٹی‘ سے بات کی تھی، جس کے ساتھ وہ کام کر رہے تھے۔ آصف مرچنٹ نے جواب دیا کہ انہوں نے بات کی ہے اور ملک والی پارٹی نے ان سے کہا کہ وہ منصوبے کو ’حتمی شکل‘ دیں اور امریکہ چھوڑ دیں۔

’جون کے وسط میں آصف مرچنٹ نے مبینہ قاتلوں سے ملاقات کی، جو درحقیقت نیو یارک میں امریکی قانون نافذ کرنے والے خفیہ افسران (یو سی) تھے۔ انہوں نے یوسیز کو کہا کہ وہ ان سے تین کام لینا چاہتے ہیں: دستاویزات کی چوری، سیاسی ریلیوں میں احتجاج کا انتظام کرنا اور ان کے لیے ایک ’سیاسی شخص‘ کو قتل کرنا۔ آصف مرچنٹ نے بتایا کہ ان کے امریکہ چھوڑنے کے بعد اگست کے آخری ہفتے یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں کس کو قتل کرنا ہے، اس بارے میں ہٹ مین کو ہدایات ملیں گی۔

’اس کے بعد آصف مرچنٹ نے قتل کی پیشگی ادائیگی کے طور پر یو سیز کو پیسے دینے کے لیے پانچ ہزار ڈالر نقد حاصل کرنے کے ذرائع کا انتظام کرنا شروع کیا، جو بالآخر انہیں بیرون ملک ایک فرد کی مدد سے ملے۔

’21 جون کو آصف مرچنٹ نے نیویارک میں یو سیز سے ملاقات کی اور انہیں پانچ ہزار ڈالر ایڈوانس ادا کیے۔

’آصف کی جانب سے یو سیز کو پانچ ہزار ڈالر ادا کرنے کے بعد ایک یو سی نے کہا کہ ’اب ہم پابند ہیں‘ جس پر مرچنٹ نے ’ہاں‘ میں جواب دیا۔ اس کے بعد یو سی نے کہا کہ ’اب ہم جانتے ہیں کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ ہم یہ کریں گے، جس پر مرچنٹ نے جواب دیا ’ہاں، بالکل۔‘

’مرچنٹ نے اس کے بعد جہاز کے انتظامات کیے اور جمعہ 12 جولائی 2024 کو امریکہ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔ 12 جولائی کو قانون نافذ کرنے والے ایجنٹوں نے مرچنٹ کو ملک چھوڑنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا تھا۔

’آصف مرچنٹ نے بتایا کہ ان کی ایک بیوی اور بچے ایران میں ہیں اور ایک بیوی اور بچے پاکستان میں ہیں۔ ایف بی آئی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘

پریس ریلیز کے مطابق نیو یارک کے مشرقی ضلع کے لیے اسسٹنٹ امریکی اٹارنی سارہ کے ونک، گلبرٹ رین اور ڈگلس پراوڈا اور نیشنل سکیورٹی ڈویژن کے انسداد دہشت گردی سیکشن کے ٹرائل اٹارنی ڈیوڈ سمتھ اور جوشوا شیمپین اس مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں۔

مجرمانہ شکایت محض ایک الزام ہے اور تمام مدعا علیہان کو اس وقت تک بے گناہ سمجھا جاتا ہے جب تک کہ عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ