فیکٹ چیک: پی آئی اے پشاور کی پرواز واقعی غلطی سے کراچی گئی؟

اسی معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پی آئی اے اور ہوا بازی کے ماہرین سے بات کی تاکہ جانا جا سکے کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا۔

پاکستان ایئر لائنز کا ایک ہوائی جہاز کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے  تین مارچ 2007 کو اڑان بھر رہا ہے (آصف حسن/ اے ایف پی)

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر گذشتہ دو دنوں سے ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے ایک طیارے کے اندرونی دروازے کے سامنے ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے اہلکار کھڑے ہیں جبکہ طیارے کے اندر مسافر احتجاج کر رہے ہیں۔

سکیورٹی اہلکار کو مسافر غصے میں کہتے ہیں کہ ’ہماری پرواز پشاور کی تھی لیکن پائلٹ نے ہمیں کراچی ہوائی اڈے پر اتار دیا ہے اور ہم 20 گھنٹوں سے ذلیل ہو رہے ہیں۔‘

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی اہلکار مسافروں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ مسلسل یہی بات کر رہے ہیں کہ پشاور کی پرواز کو کراچی میں اتار دیا گیا ہے، اور یہ کون سا انصاف ہے۔

ویڈیو میں نظر آ رہا ہے کہ بعض مسافر طیارے کے اندر کھڑے ہیں اور بعض اپنی نشستوں پر بیٹھے ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

یہ سارا معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور صارفین کی جانب سے پی آئی اے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اسی معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پی آئی اے اور ہوا بازی کے ماہرین سے بات کی تاکہ جان سکیں کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا۔

معاملہ کیا تھا؟

جس طیارے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، یہ پی آئی اے کی پرواز پی کے 248 تھی اور ایئرلائن کے مطابق طیارے کو دبئی سے پشاور جانا تھا۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 15 ستمبر کو پرواز نے دبئی سے اڑان بھری تھی اور پشاور کے بجائے پرواز کو کراچی موڑ دیا گیا تھا۔

عبداللہ نے بتایا: ’طیارے کو سنیگ (تکنیکی نقص) کی وجہ سے کراچی ہوائی اڈے پر اتار دیا گیا تھا کیونکہ پی آئی اے کا مرکزی انجینیئرنگ ہب یا ہینگر کراچی ہوائی اڈے میں ہے۔‘

طیارے میں کس قسم کی فنی خرابی تھی؟

اس حوالے سے عبداللہ حفیظ نے بتایا کہ طیارے میں مختلف قسم کے ہائیڈرولک نظام ہوتے ہیں جن میں سے ایک فلوئیڈ پریشر کم دکھا رہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اسی نقص کی وجہ سے طیارے کو کراچی اتار دیا گیا اور تین گھنٹوں کے اندر اندر مسافروں کے لیے نئے جہاز کا بندوبست کر کے انہیں پشاور پہنچا دیا گیا۔

عبداللہ حفیظ نے کہا: ’جدید ہوائی نظام میں اس طرح کی غلطی نہیں ہوسکتی کہ بلاوجہ یا غلطی سے پرواز کو کسی دوسرے مقام پر اتار دیا جائے، کیونکہ اب طیاروں میں جدید نیوی گیشن نظام نصب ہوتا ہے۔‘

جہاز میں تکنیکی خرابی کے وقت کیا ہوتا ہے؟

طاہر عمران میاں ایک صحافی ہیں اور ایوی ایشن کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جہاز میں کسی بھی قسم کی تکنیکی خرابی کے بارے میں جہاز کے کپتان اور فرسٹ آفیسر (کپتان کے ساتھ معاون کپتان) فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر چھوٹی خرابی ہو تو ہر ایک ایئرپورٹ میں کمپنیوں کے انجینیئرز موجود ہوتے ہیں اور منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد اس تکنیکی خرابی کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔

طاہر عمران نے بتایا: ’امریکہ اور یورپ جانے والی پروازیں زیادہ تر آئرلینڈ موڑ دی جاتی ہیں اگر کسی قسم کی تکنیکی خرابی ہو، جبکہ پاکستان میں انجینیئرنگ کے تمام کام کراچی میں کیے جاتے ہیں۔ باقی شہروں میں سہولیات اتنی نہیں ہیں تو زیادہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے جہاز کو کراچی موڑ دیا جاتا ہے۔‘

اس میں ایک نکتہ طاہر عمران کے مطابق یہ بھی ہے کہ پروازوں کو کراچی اس لیے بھی موڑ دیا جاتا ہے کہ وہاں پر جہاز کی ریپلیسمنٹ یعنی مسافروں کے لیے دوسرے جہاز کا بندوبست کیا جا سکتا ہے جبکہ باقی شہروں میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔

طاہر عمران نے بتایا: ’جہاز کو تکنیکی خرابی کی وجہ سے کسی دوسری منزل پر موڑنا عام سی بات ہے اور یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔‘

کیا کپتان سے سمت میں غلطی ہو سکتی ہے؟

طاہر عمران کے مطابق سوشل میڈیا پر لوگوں کی جانب سے یہ کہنا کہ ’پائلٹ نے غلطی سے کراچی میں جہاز کو اتار دیا، جہالت کی انتہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ عام لوگ تو چھوڑیں، کچھ میڈیا اداروں اور بعض سیاست دانوں نے بھی اس قسم کی خبریں چلائی ہیں، جو انتہا درجے کی جہالت ہے۔

طاہر عمران نے بتایا: ’آج کل کے جدید دور میں پیدل اور سائیکل پر بھی سمت معلوم کی جا سکتی ہے تو ایک پروفیشنل پائلٹ سے اس طرح کی غلطی کبھی نہیں ہو سکتی۔‘

انہوں نے کہا کہ فلائٹ پلان جہاز میں اڑتے ہی ڈال دیا جاتا ہے اور اسی کو فالو کر کے جہاز پرواز کرتا ہے۔ پائلٹ مختلف مراحل کے دوران تقریباً 50 بار سمت چیک کرتے ہیں۔

طاہر عمران نے کہا: ’ہمارے ہاں چونکہ پی آئی اے کے خلاف خبریں بکتی ہیں، اس لیے اس قسم کی خرافات پھیلائی جاتی ہیں۔ یہ ایک سادہ سی بات تھی کہ جہاز کے عملے نے کنٹرول سینٹر سے رابطہ کیا اور کنٹرول سنٹر نے جہاز کو کراچی موڑنے کا کہا۔ جہاز ٹھیک نہیں ہو سکا تو دوسرے جہاز میں مسافروں کو پشاور پہنچا دیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’روزانہ کی بنیاد پر جہاز موڑے جاتے ہیں اور مسافروں کو انتظار کرنا پڑتا ہے اور ٹھیک کرنے میں وقت لگتا ہے، لیکن ہماری عادت یہی ہے کہ سوشل میڈیا پر سنسنی پھیلائی جاتی ہے۔‘

جہاز میں نیوی گیشن کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟

جدید دور میں جہازوں میں نیوی گیشن کے جدید آلات نصب ہوتے ہیں، جن کی مدد سے جہاز کے کپتان اور عملہ جہاز کو ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچاتے ہیں۔

1. گلوبل نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم (GNSS) 

یہ نظام ایک گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) پر مشتمل ہوتا ہے، جو سیٹلائٹ کے ذریعے جہاز کی پوزیشن معلوم کرتا ہے۔ یورپین ایوی ایشن سکول کے مطابق، کپتان پہلے سے طے شدہ راستے کا انتخاب کرتے ہیں، اور یہ سسٹم خود بخود اس راستے پر جہاز کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ وہی جی پی ایس نظام ہے، جسے ہم اکثر اپنی گاڑیوں اور موبائل فونز میں بھی استعمال کرتے ہیں۔

2. انرشیل ریفرنس سسٹم (IRS)

یہ ایک خودکار نظام ہے جو جہاز کی حرکت اور پوزیشن کو خود بخود محسوس کرتا ہے۔ اس سسٹم میں ڈیٹا ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ خود ہی جہاز کی حرکت اور اس کی پوزیشن کا تعین کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

3. فلائٹ مینجمنٹ سسٹم (FMS)

یہ نظام جہاز کا ’دماغ‘ کہلاتا ہے۔ یورپین ایوی یشن سکول کے مطابق، فلائٹ مینجمنٹ سسٹم وہ نظام ہے جس کے ذریعے کپتان راستے کا انتخاب کرتا ہے، ایئر کنٹرول کے ساتھ رابطہ قائم کرتا ہے اور پرواز کے دوران تمام معلومات حاصل کرتا ہے۔ FMS نہ صرف جہاز کی نیوی گیشن کرتا ہے، بلکہ دوران پرواز ایندھن، رفتار، اور دیگر عوامل کو بھی منظم کرتا ہے۔

نیوی گیشن نظام کی تاریخ

ریڈیو نیوی گیشن

نیوی گیشن کا نظام 1930 میں متعارف ہوا، جب ریڈیو سگنلز کی مدد سے جہاز کی سمت کا تعین کیا جانے لگا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس نظام کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔ ابتدائی دنوں میں کپتان کمپاس، الٹی میٹر اور سورج کی سمت کی مدد سے جہاز کی سمت معلوم کرتے تھے، لیکن یہ طریقے اکثر قابلِ بھروسہ نہیں ہوتے تھے۔

انرشیل نیوی گیشن سسٹم (INS)

1950 میں انرشیل نیوی گیشن سسٹم متعارف ہوا، جو ایکسیلرومیٹر اور گرائروسکوپ کی مدد سے جہاز کی سمت اور پوزیشن کا تعین کرتا تھا۔ یہ نظام ریڈیو سگنلز پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ خودکار طور پر جہاز کی حرکت اور پوزیشن کو مانیٹر کرتا ہے۔

گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS)

1970 کی دہائی میں GPS متعارف ہوا، جو آج کے جدید نیوی گیشن نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ نظام سیٹلائٹس کے ذریعے کام کرتا ہے اور پوری دنیا میں جہازوں کی نیوی گیشن کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

آج کل جدید نیوی گیشن نظام کی بدولت پروازیں زیادہ محفوظ اور مؤثر ہو چکی ہیں۔ یہ نظام جہاز کے کپتان کو نہ صرف صحیح سمت اور منزل تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے، بلکہ پرواز کے دوران دیگر اہم معلومات جیسے کہ موسمی حالات اور فضائی راستے کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان