1858 سے 1947 تک تاج برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں 20 وائسرائے آئے، جن میں سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے زیادہ کوئی مشہور نہیں ہوا۔ وجہ واضح ہے کہ انہی کے دور میں پاکستان اور انڈیا وجود میں آئے۔
ان کا تعلق شاہی خاندان سے تھا، جو بادشاہ جارج ششم کے سیکنڈ کزن تھے۔ تقسیمِ ہند کے وقت جو بڑے واقعات ہوئے ان میں نسلی فسادات شامل ہیں، جن میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ کے لگ بھگ لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو آر پار ہجرت کرنی پڑی۔
ریاست حیدر آباد دکن، جونا گڑھ اور کشمیر کے معاملے پر ماؤنٹ بیٹن کا جھکاؤ واضح طور پر انڈیا کی جانب تھا اور اس لیے پاکستانی مؤرخین انہیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی پاکستان سے مخاصمت کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے انہیں پاکستان کا گورنر جنرل بننے نہیں دیا تھا، جب کہ انڈیا نے یہ عہدہ انہیں بخوشی پیش کر دیا تھا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن دونوں ملکوں کا گورنر جنرل کیوں بننا چاہتے تھے؟
ایلن کیمبل جانسن، جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پریس اتاشی کے طور پر فرائض ادا کرتے رہے، کی ایک کتاب ہے ’عہدِ لارڈ ماؤنٹ بیٹن‘، جس کے مترجم یونس احمر ہیں۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’اگر ماؤنٹ بیٹن 15 اگست کو سارے اختیارات اپنے کسی جانشین کو سونپ دیتے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ ہندوستان کو آتش فشاں کے دہانے میں جھونک کر جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ہر طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہو جائے گی کہ وہ کام کو ادھورا چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔‘
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی اپنی بھی یہ خواہش تھی کہ وہ ایک عبوری مدت، جو آٹھ نو ماہ ہو سکتی ہے، کے لیے دونوں ملکوں کے مشترکہ گورنر جنرل رہیں تاکہ اثاثوں کی تقسیم سمیت ممکنہ تنازعات پر اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس کے لیے انہوں نے وزیراعظم ایٹلی کی حمایت بھی حاصل کر لی تھی اور برطانوی پارلیمنٹ میں آزادیِ ہند کے مسودہ قانون پر جو بحث ہوئی تھی، اس میں بھی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اس اقدام کو سراہا گیا تھا۔
ایلن کیمبل جانسن کا بھی خیال تھا کہ ’ہندوستان کی 560 سے زائد ریاستیں اور راجواڑوں کو نئے حالات کے سانچے میں ڈھالنا ایک بڑا چیلنج تھا، کیونکہ برطانوی ہند کی آبادی 30 کروڑ جبکہ ریاستوں اور راجواڑوں کی 11 کروڑ تھی۔ 15 اگست سے پہلے تک وائسرائے برطانوی ہند اور ریاستوں کے درمیان ایک رابطہ کار کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن 15 اگست کے بعد جب حالات یکسر مختلف ہو جائیں گے تو نہ وائسرائے رہے گا، نہ ہی حاکمیت باقی رہے گی۔ 15 اگست سے پہلے تک ماؤنٹ بیٹن کچھ کر سکے تو ٹھیک ورنہ مجھے سارے برصغیر میں انتشار پھیل جانے کا خطرہ نظر آتا ہے۔‘
قائداعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل کیوں تسلیم نہیں کیا؟
وائسرائے نئی دہلی میں دو جولائی 1947 کو ایک خصوصی اجلاس بلایا گیا، جس میں مسلم لیگ اور کانگریس کی اعلیٰ قیادت شریک ہوئی۔ کانگریس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی اس پیشکش کو کہ وہ عبوری دور میں دونوں ملکوں کے مشترکہ گورنر جنرل بننا چاہتے ہیں، نہ صرف تسلیم کر لیا بلکہ اسے سراہا بھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قائداعظم نے بھی اس تجویز کو سراہا لیکن کہا کہ ان کے قریبی رفقا کو اس تجویز پر اعتراض ہے۔ Transfer of Power documents نامی برطانوی دستاویزات میں رقم ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جناح سے کہا: ’کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایسا نہ کرنے سے آپ کو کتنا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے؟‘
تو جناح نے مایوسی کے عالم میں کہا: ’شاید ہمیں کروڑوں کے اثاثوں سے محروم ہونا پڑے۔‘
تو میں نے تند لہجے میں جواب دیا: ’شاید یہ سودا آپ کو اتنا مہنگا پڑے کہ اس کے اثرات پاکستان کے مستقبل پر بھی مرتب ہوں۔‘
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے لکھا کہ اس کے بعد وہ کمرے سے اٹھ کر چلے گئے۔
قطب الدین عزیز کی 1997 میں چھپنے والی کتاب Jinnah and the Battle for Pakistan میں لکھا ہے کہ ’اس ملاقات کے اگلے روز ماؤنٹ بیٹن نے برطانوی وزیراعظم کو ایک خفیہ ٹیلی گرام بھیجا، جس میں لکھا کہ ’قائداعظم گذشتہ رات میرے پاس آئے اور بتایا کہ وہ آزادی کے دن سے پاکستان کے گورنر جنرل بننا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں چار گھنٹے تک سمجھایا کہ عبوری دور میں مشترکہ گورنر ہونے کے کیا فوائد ہو سکتے ہیں، لیکن وہ بضد رہے کہ میری عدم نگرانی میں چاہے کروڑوں کا نقصان ہو جائے مگر وہ پھر بھی گورنر جنرل بننا پسند کریں گے۔
’جناح کے اس واضح انکار کے بعد میں اس کشمکش میں ہوں کہ کیا مجھے نہرو کی پیشکش قبول کر کے صرف انڈیا کا گورنر جنرل بن جانا چاہے یا پھر 15 اگست کو دستبردار ہو جاؤں۔‘
یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر قائداعظم محمد علی جناح نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو مشترکہ گورنر کیوں قبول نہیں کیا تھا؟
اس کا ایک جواب ہمیں تحریک پاکستان کے نامور کارکن سردار شوکت حیات اپنی خود نوشت ’گم گشتہ قوم‘ میں دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’قومی پرچم کمیٹی اور دوسری سلیکشن کمیٹیاں جس کا میں رکن تھا، کا اجلاس نوابزادہ لیاقت علی خان کے گھر پر ہو رہا تھا۔
’نوابزادہ نے ممتاز، چوہدری محمد علی اور مجھے کہا کہ ’ہم لوگ لنچ ان کے ساتھ کریں گے۔‘ وہیں پر تمام سکیم مرتب ہوئی، مختلف ارکان کو فرائض تفویض کیے گئے کہ وہ ٹیلی گراموں کا سیلاب برپا کر دیں تاکہ قائداعظم ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل نہ بننے دیں۔
’میں ماؤنٹ بیٹن کی جبلتِ خود نمائی سے واقف تھا لہٰذا میں نے اس سکیم سے اختلاف کیا۔ میرا اندازہ تھا کہ اگر ماؤنٹ بیٹن کی اس خواہش کو مسلم لیگ نے رد کر دیا تو ہندو کانگریس خوشی خوشی اسے انڈیا کا گورنر جنرل بنانے میں بڑی تیزی دکھائے گی اس طرح وہ پاکستان کے لیے رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کرے گا۔
’جب تک میں نے قائداعظم کو اس سے آگاہ کیا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ میرے سوال پر قائداعظم نے مڑ کر کہا: ’شوکت، یہ ہزاروں ٹیلی گرام مجھے اس مسئلے پر قوم کی جانب سے موصول ہوئے ہیں۔ ان کی طرف دیکھو۔ صرف تم، نواب اسماعیل، نواب آف بھوپال اور سردار عبد الرب نشتر نے ماؤنٹ بیٹن سکیم کی حمایت کی ہے جبکہ میں عوامی رجحان کو دیکھتا ہوں جسے رد کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔‘
’میں نے پھر کہا: ’جناب، ٹیلی گراموں کی بھرمار ایک سوچی سمجھی سکیم ہو سکتی ہے۔
’میں نے بتایا کہ جناب میں ماؤنٹ بیٹن کو بطور کمانڈر جانتا ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمارا یہ فیصلہ پاکستان کے لیے انتہائی پر آشوب ثابت ہو گا۔ وہ صرف ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘
چوہدری محمد علی، جو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بنے، اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے تھے۔ ان کی خود نوشت ’ظہورِ پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ’قائداعظم افتاد طبیعت اور زندگی بھر کی تربیت کے باعث آئین پسند مزاج رکھتے تھے، ان کے لیے یہ بات ناقابل فہم تھی کہ جس آئینی گورنر جنرل کو دو ڈومینوں کی وزارتوں کی جانب سے متضاد مشورہ دیا جا رہا ہو وہ اپنی ذمہ داری سے کس طریقے سے بطریقِ احسن عہدہ بر آ ہو سکتا ہے؟‘
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل نہ بنانے کا فیصلہ پاکستان کو کتنے میں پڑا؟
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان آج تک اس نقصان سے باہر نہیں نکل سکا، جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو مشترکہ گورنر جنرل نہ بنانے سے ہوا ہے تو یہ بات ہرگز خلافِ عقل نہیں ہو گی۔ کانگریس کے رہنماؤں نہرو اور پٹیل نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو شیشے میں اتارا اور 560 آزاد ریاستوں اور راجواڑوں کو انڈیا میں شامل کروانے کے لیے تمام جتن کیے۔
ایچ وی ہڈسن کی کتاب The Great Divide میں لکھا ہے کہ پٹیل نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کہا: ’میں آپ کی جانب سے سیبوں سے بھری ٹوکری کا منتظر ہوں۔‘
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پوچھا: ’کیا مطلب؟‘
پٹیل بولے: ’میں 565 سیب خرید کر انہیں انڈیا کا حصہ بنانا چاہتا ہوں، لیکن اگر دو یا تین سیب بھی کم نکلے تو سودا نہیں ہو گا۔‘
اس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جواب دیا: ’کلی طور پر شاید ایسا کرنا میرے لیے ممکن نہ ہو لیکن میں پوری کوشش ضرور کروں گا۔‘ پھر کہا: ’اگر میں آپ کو 560 سیبوں کی ٹوکری دوں تو کیا تم خریدو گے؟‘ پٹیل بولے کہ ’میں ضرور خریدوں گا۔‘
اس کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنا پورا زور لگا دیا کہ ریاستیں اپنا الحاق انڈیا کے ساتھ کریں۔
سردار شوکت حیات اپن خود نوشت ’گم گشتہ قوم‘ میں ان نقصانات کے بارے میں لکھتے ہیں، جو پاکستان کو ماؤنٹ بیٹن نے محض اس وجہ سے پہنچائے کہ اسے پاکستان نے عبوری طور پر گورنر جنرل تسلیم نہیں کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’بعد میں میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔ دفاعی سازو سامان اور اثاثوں کی تقسیم میں ہمیں بھاری نقصان ہوا، نسلی فسادات میں مسلح سکھوں نے لاکھوں مسلمان قتل کیے لیکن ماؤنٹ بیٹن نے کچھ نہ کیا۔ ہم نے اسی وجہ سے کشمیر کو کھو دیا۔
’مسٹر بیونٹ جو ریڈ کلف کا سیکریٹری تھا، اس نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ جو نقشہ ریڈ کلف نے گورنر پنجاب کے پاس چھوڑا تھا، اس میں گورداس پور کا ضلع پاکستان کا حصہ ہونا تھا اور اسی لیے وہاں ایک پاکستانی ڈپٹی کمشنر متعین ہوا تھا۔
’یہ مسلم اکثریتی ضلع تقسیم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔ اس طرح انڈیا اور کشمیر کے درمیان ایک راستہ قائم کر دیا گیا، دوسری طرف مہاراجہ بیکانیر کو خوش کرنے لیے ضلع فیروز پور کی دو تحصیلیں ہندوستان کو دی گئیں۔
’بیکانیر نہر کا ہیڈ ورکس میانوالہ پاکستان میں تھا جو مہاراجہ کو قبول نہیں تھا۔ مہاراجہ نے کہا کہ فیروز پور اگر پاکستان کے ساتھ چلا گیا تو وہ بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کر لے گا، جس کی وجہ سے تقسیم کے طے شدہ اصولوں کو پامال کیا گیا، یہی امرتسر کی تحصیل اجنالہ کے ساتھ ہوا۔
’محض اس بنا پر کہ ماؤنٹ بیٹن فیملی کے نہرو فیملی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل قبول نہ کرنا ایک غلط فیصلہ تھا، جس کے نتائج تباہ کن ہوئے۔‘
آگے چل کر سردار شوکت حیات لکھتے ہیں کہ نوابزادہ لیاقت علی خان چونکہ خود وزیراعظم بننا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے قائداعظم کو اس سلسلے میں مِس گائیڈ کیا۔
پاکستان اور انڈیا کو آزادی ملے 77 سال ہو چکے ہیں مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے چھوڑے ہوئے تنازعات کے زخموں سے آج بھی خون رس رہا ہے، جس کا اثر پورے جنوبی ایشیا پر پڑ رہا ہے۔
لارڈ ماونٹ بیٹن خود 27 اگست 1979 کو 79 سال کی عمر میں آئرش رپبلکن آرمی کے ہاتھوں مارا گیا، مگر پاکستان اور انڈیا کے کروڑوں عوام ان تنازعات پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے جیتے جی مر رہے ہیں۔
تاریخ بعض اوقات بظاہر معمولی نظر آنے والے فیصلوں کی بھاری قیمت وصول کرتی ہے۔ قائداعظم آخری ایام میں علیل تھے ان کا عوامی رابطہ کم ہو گیا تھا، جس کا فائدہ ان کے ان رفقا نے اٹھایا، جنہیں بعد ازاں وہ خود ’کھوٹے سکے‘ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔