اسرائیل نے تفصیلات بتائے بغیر لبنان آپریشن سے متعلق آگاہ کیا تھا: امریکی حکام

امریکی حکام نے جمعرات کو بتایا ہے کہ اسرائیل نے امریکی سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کو منگل (17 ستمبر) کو بتایا تھا کہ لبنان میں ایک فوجی آپریشن ہونے جا رہا ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن (دائیں) 25 جون 2024 کو واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ (بائیں) کا پینٹاگون میں خیرمقدم کرتے ہوئے (اے ایف پی)

امریکی حکام نے جمعرات کو بتایا ہے کہ اسرائیل نے امریکی سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کو منگل (17 ستمبر) کو بتایا تھا کہ لبنان میں ایک فوجی آپریشن ہونے جا رہا ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جس دن یہ فون کال کی گئی، اسی دن لبنان میں حزب اللہ کے زیراسعتمال ہزاروں پیجرز پھٹنے کے واقعات پیش آئے تھے، جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جا رہا ہے۔

اس ہفتے لائیڈ آسٹن اور اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے درمیان چار مرتبہ بات چیت ہوئی اور مذکورہ کال انہی میں سے ایک تھی، کیونکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں شدت آگئی ہے، جس سے ایک وسیع علاقائی جنگ کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی اور اسرائیلی وزیر دفاع نے منگل (17 ستمبر) کو دوبارہ بات کی اور امریکہ نے اعتراف کیا کہ حملے کے بعد اسے بریفنگ دی گئی۔ امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ بدھ کو ایک اور کال ہوئی اور انہوں (لائیڈ آسٹن اور یو آو گیلنٹ) نے اتوار کو بھی بات کی تھی۔

تاہم امریکی عہدیداروں نے بتایا کہ بدھ کو دوسرے حملے میں واکی ٹاکی ریڈیوز پھٹنے کے بارے میں امریکہ کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔

ان دو دنوں کے واقعات میں کم از کم 37 افراد جان سے گئے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں اور تقریباً تین ہزار زخمی ہوئے۔

امریکی عہدیداروں نے زور دے کر کہا کہ واشنگٹن کا ان حملوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کارروائیوں کی تفصیلات سے حیران ہیں۔

اس ہفتے الیکٹرانک آلات پر حملے بظاہر اسرائیل کی مہینوں پرانی مہم کا عروج نظر آتے ہیں، جس کا مقصد بیک وقت زیادہ سے زیادہ حزب اللہ کے اراکین کو نشانہ بنانا تھا، لیکن عام شہری بھی اس کا نشانہ بنے۔

جمعرات کو پینٹاگون کی خاتون ترجمان سبرینا سنگھ نے چار ٹیلی فون کالز کا اعتراف کیا لیکن اس بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ یہ کس وقت ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ حملوں میں اضافے کے نتیجے میں امریکہ نے خطے میں اپنی فوجی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔

سبرینا سنگھ نے بتایا کہ بدھ کو یو آو گیلنٹ کے ساتھ ایک کال کے دوران لائیڈ آسٹن نے علاقائی سلامتی کی پیش رفت کے بارے میں بات کی اور خطے میں ایران، حزب اللہ اور دیگر ایرانی پراکسیوں کی دھمکیوں کے پیش نظر اسرائیل کے لیے امریکہ کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔

پینٹاگون کی ترجمان نے کہا کہ لائیڈ آسٹن نے ’علاقائی مخالفین کو روکنے، خطے میں کشیدگی کم کرنے اور حماس کی جانب سے قیدی بنائے گئے افراد کی وطن واپسی کے لیے فائر بندی معاہدے کی امریکی ترجیح کے بارے میں بات کی۔‘

سبرینا سنگھ نے بتایا کہ انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ ایک سفارتی حل تلاش کیا جائے تاکہ اسرائیل اور لبنان کی شمالی سرحد پر دونوں جانب کے شہری اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔

جب لبنان میں موجود امریکی شہریوں کے امریکی فوج کے ذریعے ممکنہ انخلا کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو ترجمان نے کہا کہ پینٹاگون کو ایسا کرنے کے لیے محکمہ خارجہ سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔

محکمہ خارجہ نے لبنان میں موجود امریکی شہریوں سے کہا کہ وہ عوامی مقامات پر اپنی موجودگی کم رکھیں اور اس ہفتے سکیورٹی کی آگاہی کے بارے میں اپنے معلومات کا جائزہ لیں۔

محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ لبنان سے امریکیوں کے ممکنہ انخلا کے لیے طویل عرصے سے منصوبے موجود ہیں لیکن ان کے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان منصوبوں پر کب عمل کرنا ہے۔

نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بدھ کو نامہ نگاروں کو بتایا: ’ہمارے پاس دنیا بھر کے مختلف مقامات کے لیے انخلا کے منصوبے موجود ہیں، لیکن میں یہ نہیں چاہوں گا کہ آپ یہ سمجھیں کہ ہم اس وقت ایسے لمحے میں ہیں جب ہمیں فوری طور پر اس کا اعلان کرنے یا اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

دیگر حکام نے بتایا کہ امریکی بحری جہاز جن میں میرینز سوار ہیں، پہلے ہی بحیرہ روم میں اچھی پوزیشن پر ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر مدد فراہم کر سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا