پنجاب میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ادارے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) نے سموگ کے تدارک کے لیے اقدام کے طور افسران کو دی گئی سرکاری گاڑیاں واپس لے کر ’کارپُولنگ کا نظام‘ متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ای پی اے کے ترجمان ساجد بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایجنسی میں افسران کو دی گئی سرکاری گاڑیاں واپس لینے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
’یہ گاڑیاں وقتی طور پر واپس لی جارہی ہیں تاکہ انہیں کارپُولنگ کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اب ہر دو سے تین افسران کو گھر اور دفتر کے درمیان سفر کی غرض سے محکمہ کا کار پولنگ سسٹم استعمال کرنا ہو گا۔‘
ساجد بشیر کا کہنا تھا کہ ادارے کے لاہور میں مرکزی دفتر میں 120 ملازمین کام کرتے ہیں، جو اب دفتر اور گھر کے درمیان کا سفر ادارے کی مہیا کردہ 12 گرینڈ کیبن گاڑیوں میں کریں گے اور یہ طریقہ کار اکتوبر سے دسمبر کے اختتام تک رائج رہے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’گریڈ 16 کے 10 افسران کے لیے تین اور 17 کے 18 گریڈ کے 16 اسسٹنٹ دائریکٹرز کے لیے چار گاڑیاں مختص کی گئی ہیں، جب کہ باقی دو 16 گریڈ کے ملازمین افسران کی کار پُولز سے مستفید ہوں گے۔ ادارے کے چھ ڈائریکٹرز دو گاڑیاں استعمال کریں گے۔‘
ترجمان ای پی اے کا کہنا تھا کہ باقی ملازمین کے لیے بھی چھوٹی گاڑیاں استعمال کی جائیں گی اور یہ کار پُولنگ جن روٹس پر چلے گی ان میں ٹھوکر نیاز بیگ اور بحریہ ٹاؤن سے ہوتا ہوا گلبرگ ہیڈ آفس، آر اے بازار، کینٹ، ڈی ایچ اے سے جب کہ تیسرا روٹ اندرون لاہور کے علاقوں سے ہوتا ہوا گلبرگ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ادارے کے افسران کے پاس کلٹس، مہران، اور کرولا گاڑیاں ہیں جبکہ لوئر سٹاف کے پاس موٹر سائیکلیں اور کارپُولنگ کے تحت ہم کم سے کم آلودگی پھیلانے کا سبب بنیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف کسی بڑی ایمرجنسی کی صورت میں ہی افسران کو اجازت ہو گی کہ وہ دفتر میں کھڑی اپنی گاڑی پر اکیلے سفر کر سکتے ہیں۔
ای پی اے کے ڈائریکٹر جنرل عمران حامد شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے نیک کام کی شروعات اپنے گھر سے کی ہے تاکہ سموگ کے تٓدارک میں جہاں ہم کوشاں ہیں وہیں ہم خود بھی اپنے آپ کو ذمہ دار شہری بنا سکیں‘
ان کا کہنا تھا کہ کار پُولنگ سسٹم فی الحال ای پی اے نے شروع کیا ہے لیکن کوشش ہو گی کہ کہ دوسرے محکمے بھی اس پر عمل کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس سلسلے میں ہماری پولیس، پی ڈی ایم اے، ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ سے بات چیت چل ری ہے اور انہیں اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کارپُولنگ سسٹم متعارف کروایا جائے تاکہ سموگ سے زیادہ سے زیادہ بچا جاسکے۔‘
انہوں نے بتایا: ’صرف لاہور میں موٹر سائیکلوں کی تعداد 45 لاکھ ہے جن میں روزانہ 1800 کا اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ ٹرانسپورٹیشن آلودگی کا 70 فیصد حصہ یہی سواری پیدا کرتی ہے۔
’اگر ان موٹر سائیکل مالکان کو مختلف شعبہ جات کارپُولنگ پر لے آئیں تو ہم سموگ میں کافی حد تک کمی لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’لاہور میں کامیابی حاصل ہونے پر اس سسٹم کا دائرہ کار ان شہروں تک بھی بڑھایا جائے گا جو سموگ پیدا کرنے میں آگے ہیں جن میں شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، گجرانوالہ اور قصور شامل ہیں۔‘
کارپُولنگ سسٹم کیا ہے؟
مشترکہ نقل و حرکت کے میدان میں کارپُولنگ کو ایک پائیدار اور اقتصادی طور پر مؤثر حل مانا جاتا ہے۔ یہ ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے اور ٹریفک کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے، جبکہ اس قسم کی نقل و حمل کا انتخاب کرنے والے لوگوں کے درمیان یکجہتی اور تعامل کو بھی فروغ دیتا ہے۔
کارپُولنگ میں استعمال ہونے والی گاڑی شرکا میں سے ایک کی ہوتی ہے، جو ڈرائیور کے طور پر کام کرتا ہے اور دستیاب نشستوں کو دوسرے مسافروں استع مال کرتے ہیں۔ ڈرائیور مسافروں سے ایندھن اور دیکھ بھال جیسے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مالی تعاون وصول کر سکتا ہے۔
کارپُولنگ میں شرکا کی ترجیحات اور حالات کے مطابق کئی اختیارات شامل ہیں۔ کچھ کارپُولنگ گروپوں میں، ڈرائیور باری باری گاڑی چلاتے ہیں، جب کہ دوسروں میں، ایک ہی شریک کار مشترکہ گاڑی کا ڈرائیور اور مالک ہوتا ہے، دوسرے مسافروں کے ساتھ اخراجات پورے کرتے ہیں۔