محکمہ ماحولیات پنجاب نے آئندہ آنے والے دنوں میں سموگ کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ڈرون مانیٹرنگ سسٹم متعارف کروایا ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظام کیسے موثر ثابت ہوگا اور اب تک کیا اقدامات لیے جاچکے ہیں۔
صوبائی ترجمان محکمہ ماحولیات ساجد بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ پنجاب میں آلودگی پھیلانے والے عناصر، جن میں فیکٹریز کی چمنیاں بھی شامل ہیں، ان کی فضائی نگرانی ڈرونز کے ذریعے کی جائے گی۔
ساجد بشیر نے کہا کہ ’زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس اتنے لوگ نہیں ہوتے کہ وہ ہر جگہ جا سکیں۔ ایسے میں وہ ڈرونز جن کی رینج اچھی ہے انہیں استعمال کیا جارہا ہے اور جن فیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں نکل رہا ہے ان کے گوگل کورڈینیٹس لاک کر دیے جاتے ہیں اور ٹیم کو وہاں بھیج کر فیکٹری بند کر دی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے سسٹم کا آغاز گوجرانوالہ سے کیا گیا۔ ہر ضلع اپنی مانیٹرنگ خود کرے گا ساری ویڈیوز محفوظ کر کے متعلقہ افسر کو مطلع کیا جائے گا تاکہ وہ فوری کارروائی عمل میں لائے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت ہم نے گوجرانوالہ کے لیے دو ڈرونز لیے ہیں جبکہ لاہور کے لیے ہم فارسٹ آفس کے چار ڈرون استعمال کر رہے ہیں جبکہ سموگ زیادہ تر قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور فیصل آباد میں بنتی ہے۔ ان اضلاع کے لیے مزید ڈرونز دوسرے فیز میں خریدے جائیں گے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم نے لاہور میں ’ہاک آئی‘ کے نام سے ایک گاڑی بھی متعارف کروائی ہے جس کے اوپر ایک کیمرہ لگا ہے جو 360 ڈگری پر گھومتا ہے۔ یہ گاڑی انڈسٹریل علاقوں میں گھومتی ہے، اس کی مانیٹرنگ لاہور ہیڈ آفس میں قائم کنٹرول روم میں کی جاتی ہے۔‘
گرمیوں کا موسم ابھی ختم نہیں ہوا لیکن پنجاب میں سموگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
بین الاقوامی ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق منگل کی صبح لاہور ایئر کوالٹی انڈکس 164 کے ساتھ آلودگی کے اعتبار سے ملک میں پہلے نمبر پر لے آیا جبکہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ (انڈیکس ہر گھنٹے تبدیل ہوتا ہے)
محمکہ موسمیات کے مطابق آلودگی یا سموگ میں اب مسلسل اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ شاہد عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اگست کے تین ہفتے گزرنے کے بعد سے سموگ شروع ہو چکی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ ستمبر کے مہینے میں اچھی بارشیں نہیں ہیں بلکہ بہت کم بارشیں ہیں۔‘
شاہد عباس کا کہنا تھا کہ 13 اور 14 ستمبر کو بارش ہے لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے بعد خشک موسم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی زمین میں کچھ نمی ہے لیکن اس سے بھی فرق نہیں پڑے گا جب خشک موسم شروع ہو گا تو دو تین ہفتوں بعد گرد میں اضافہ ہو جائے گا۔ گرد و غبار اور ٹریفک اس میں سب سے زیادہ اضافہ کرے گی اور ہمارا ایئر کوالٹی انڈٰکس کافی خراب ہو جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سموگ کا باقاعدہ آغاز ستمبر کے آخر سے ہو گا اور یہ دسمبر تک رہے گی۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ ماحولیات نے ایک نیا سیل بنایا ہے جس کا نام انوائرنمنٹ مانیٹرنگ اینڈ مینجمنٹ سیل (ای ایم ایم سی) ہے جس کا مینڈیٹ مصنوعی بارشیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’محکمہ ماحولیات کے سیکریٹری اس کے چیئرمین ہیں اور مختلف محکموں سے 11 لوگ اس کے رکن ہیں، جن میں ایک میں بھی ہوں۔ ہماری ایک میٹنگ بھی ہو چکی ہے ہم لوگ مصنوعی بارشوں کو مینیج کریں گے کہ کب کہاں اس کی ضرورت ہو گی۔‘
شاہد عباس کا کہنا تھا کہ ’مصنوعی بارش کا ویسے تو دنیا بھر میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا لیکن یہ ایک قدم ہے جو اٹھایا ہے ہم نے، جو کچھ حد تک سموگ کو ختم کرنے میں مدد کرے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ طریقہ مہنگا ہے۔‘
محکمہ موسمیات کے ترجمان ساجد بشیر کا کہنا تھا کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ گذشتہ تین چار برسوں سے محکمہ ماحولیات نے سموگ کے لیے اتنے اقدامات کیے اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
انہوں نے بتایا کہ لاہورسمیت پنجاب بھر میں 44 ایسے پلانٹس مسمار کیے گئے جو ٹائر جلا کر کاربن اور پائرولیسس بناتے تھے جبکہ باقی بچ جانے والوں کے میٹر اور ٹرانسفارمٓر اتار لیے گئے ہیں تاکہ وہ کام نہ کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عموماً ایسی کارروائیاں اکتوبر کے بعد سموگ کے دوران شروع کی جاتی ہیں لیکن اس بار انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) نے یکم اپریل سے کریک ڈاؤن شروع کیا ہوا ہے۔
’ای پی اے پنجاب نے گذشتہ 150 دنوں کے دوران پنجاب میں 43,609 صنعتی یونٹس اور اینٹوں کے بھٹوں کا معائنہ کیا، 315 یونٹس کو مسمار کیا، 1,444 انڈسٹریل یونٹس اور بھٹوں کو سیل کیا اور 1,425 ایف آئی آر درج کیں۔ جبکہ ان پر 14 کروڑ روپے سے زائد جرمانہ عائد کیا جبکہ اب تک 27 لاکھ روپے سے زائد کی وصولی کی گئی ہے۔‘
ساجد نے اعدادو شمار بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ ای پی اے ٹیموں نے پنجاب کے تمام اضلاع میں اب تک 92 صنعتی یونٹس کے ساتھ اینٹوں کے 223 بھٹوں کو مسمار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں ای پی اے پنجاب نے 1,857 صنعتی یونٹس کا معائنہ کیا اور اینٹوں کے بھٹوں کے ساتھ 110 یونٹس کو سیل کیا اور 54 یونٹس کو مسمار کیا اور 54 ایف آئی آر درج کیں اور 15 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔
’فیصل آباد میں 1,492 انسپکشنز، 183 کو سیل، نوٹسز 680 اور 1025 ملین روپے جرمانہ کیا گیا۔
شیخوپورہ میں 1198 انسپکشنز، 195 نوٹسز، 125 سیل، 86 ایف آئی آر اور 930,000 جرمانہ کیس گیا۔
قصور میں 1788 انسپکشنز، 398 نوٹسز، 140 سیل، 50 ایف آئی آر اور 140,000 روپے جرمانہ بھی اس میں شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ کاربن، بجلی اور کوئلے کی نسبت سستا پڑتا ہے اس لیے وہ انڈسٹریز میں اب بھی آرہا ہے اور اگر کوئی انڈسٹری اسے استعمال بھی کر رہی ہے تو ہم اسے چلنے نہیں دے رہے جب تک کہ وہ اپنا امیشن کنٹرول سسٹم (ای سی ایس) یا اخراج کا کنٹرول سسٹم نہیں لگا لیتے۔
’ہم نے جب سے سختی کی ہے تب سے انڈسٹریز نے ای سی ایس سسٹم لگانے شروع کر دیے ہیں۔ دوسرا ہم نے ہر انڈسٹری کی چمنیوں کو آن لائن کر دیا ہے یعنی ہر انڈسٹری نے اپنے کیمرہ لگا کر ہمیں اس کی رسائی 24 گھنٹے تک دیتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود سموگ بڑھ رہی ہے۔
’جس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پنجاب کی 70 فیصد زمین زرعی ہے جن دنوں مونجی (فصلوں) کی کٹائی ہونی ہے ان دنوں 70 فیصد پنجاب میں آگ لگی ہونی ہے۔ دوسرا آلودگی میں 60 فیصد زیادہ حصہ ٹرانسپورٹ کا ہے، انڈسٹری سے نکلنے والی آلودگی 16 فیصد حصہ ہے۔ دوسرا سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ فصلوں کی کٹائی امرتسر میں بھی انہیں دنوں میں ہوتی ہے اور ان دنوں ہوا کا رخ بھی ہماری طرف ہوتا ہے وہاں سے آنے والی آلودگی کا ہم کیسے کچھ بگاڑ سکتےہیں؟‘