بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایگزیکٹیو بورڈ آج بروز بدھ کو پاکستان کے سات ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی حتمی منظوری کے لیے جائزہ لے گا۔
پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس اجلاس میں پاکستان کے قرض پروگرام کی منظوری کی امید ظاہر کی ہے۔
حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالرز کے قرض کے حصول کے لیے سٹاف لیول معاہدہ جولائی 2024 میں طے پا چکا ہے جسے ایگزیکٹیو بورڈ کی جانب سے باقاعدہ منظور کیا جانا باقی تھا۔
اس سے قبل پاکستان آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا سٹینڈ بائے معاہدے کے تحت قرض حاصل کر چکا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے 24 ستمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے افتتاحی اجلاس کے موقعے پر ایک مباحثے کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’کل آئی ایم ایف بورڈ کی میٹنگ ہے، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تھیں، ہم نے ان کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدہ حتمی مراحل میں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کا ’دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ‘ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔‘
دوسری جانب پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کو نجی شعبے کے تحت منقدہ ایک مباحثے ’سی پیک 2 اور خطہ‘ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’ہم بہت پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف کا بورڈ 37 ماہ طویل سات ارب ڈالرز کے پروگرام کی منظوری دے دے گا جس کے تحت ہم نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنےکی یقین دہانی کروائی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ اب ہمیں آگے بڑھنے اور اصلاحاتی ایجنڈے پر چلنے کی ضرورت ہے، خواہ اس میں ٹیکس لگانے پڑیں یا پھر توانائی سے متعلق سرکاری اداروں کی نجکاری کرنی پڑے۔‘
پاکستان میں حالیہ معاشی بحران سب سے طویل رہا جس میں افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی اور اس نے ملک کو آئی ایم ایف کے قرض سے قبل گذشتہ موسم گرما میں خود مختار ڈیفالٹ کے دہانے پر دھکیل دیا تھا۔
حالیہ برسوں میں آئی ایم ایف کے پروگراموں کی شرائط مزید سخت ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کو زیادہ ٹیرف لگانے اور سبسڈی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق، تازہ ترین بیل آؤٹ کا مقصد بحران سے دوچار جنوبی ایشیائی ملک میں استحکام اور جامع ترقی کو مستحکم کرنا ہے۔