حکومت بضد، پی ٹی آئی مخالف، آئینی عدالتیں کتنی ضروری ہیں؟

جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے اس حوالے سے حکومت کا ساتھ دینے سے متعلق رضا مندی کا اظہار نہیں کیا گیا جبکہ حکومتی رہنما ان سے بات چیت جاری ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فی الحال دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث آئینی ترامیم منظور کرانے میں دشواری کا سامنا ہے (قرۃ العین شیرازی/ انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں آئینی ترامیم کے ذریعے عدالتی اصلاحات کے پیکج کی منظوری کے لیے پر عزم ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے وفاقی آئینی عدالتوں کے قیام کو روکنے کے لیے احتجاج کی کال بھی دی گئی ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے زیادہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اس مقصد کے لیے متحرک دکھائی دیتی ہے۔ لیکن حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فی الحال دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث آئینی ترامیم منظور کرانے میں دشواری کا سامنا ہے۔

اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری منگل کو کراچی بار سے خطاب میں دو ٹوک اعلان کر چکے ہیں کہ ’آئینی ترامیم بھی کرائیں گے اور وفاقی آئینی عدالت کا قیام بھی ضرور ہوگا۔‘

وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے بھی اعلان کیا کہ ’آئینی عدالتیں ہر صورت قائم کریں گے کوئی نہیں روک سکتا۔‘

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے اس حوالے سے حکومت کا ساتھ دینے سے متعلق رضا مندی کا اظہار نہیں کیا گیا جبکہ حکومتی رہنما ان سے بات چیت جاری ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما حامد خان نے کہا ہے کہ ’ہم کسی صورت آئینی عدالتیں قائم کر کے آئین کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے خلاف وکلا تحریک شروع کر دی گئی ہے پہلے لاہور میں کنونشن ہوا اور اب کراچی میں کریں گے۔‘

تجزیہ کار سلیم بخاری کے بقول، ’آئینی عدالتوں کی مثالیں دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہیں۔ پاکستان میں چیف جسٹس کے عہدے پر بیٹھنے والوں نے جس طرح ماضی میں پارلیمانی بالادستی کو نقصان پہنچایا۔ اب اس کی گنجائش ختم کرنا ضروری ہے۔ یہ ابھی سیاسی منصوبہ بندی  کے تحت نہیں بلکہ 2006 میں بنائے گئے اس میثاق جمہوریت کے تحت ہو رہا ہے جس پر عمران خان، مولانا سمیت تمام بڑے سیاسی رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں۔‘

حکومتی جماعتوں کی ممکنہ تیاری اور اپوزیشن کی حکمت عملی

مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جو کہتے ہیں یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا وہ سن لیں آئینی عدالت ہر صورت بنے گی۔ یہ میثاق جمہوریت کی ڈیمانڈ ہے پیپلز پارٹی سمیت تمام حکومتی جماعتوں نے تیاری مکمل کر لی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی ان عدالتوں کے قیام پر متفق ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایک اچھے عمل پر سیاسی جماعتیں متحد ہیں باقی جزیات پر جن میں ججز کی عمر کیا ہونی چاہیے، ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہوگا یا اختیارات کیا ہوں گے اس حوالے سے بہتری کے لیے گفتگو جاری ہے۔‘

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’ہم نے جو ابھی تک طے کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو آئینی عدالت کا چیف جسٹس لگایا جائے۔ اب اس پر بحث ہو رہی ہے کہ فلاں کو لگایا جائے یا فلاں کو لگایا جائے یہ بحث فضول ہے۔ سینیئر تین ججز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔‘

 شازیہ عطا مری نے بدھ کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’پیپلز پارٹی کسی سیاسی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اداروں کے استحکام اور عوام کو سستے، جلد انصاف کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ موجودہ عدالتی نظام میں کئی سال کیسوں کے فیصلے تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔ لوگوں کو انصاف کی ضرورت ہے۔

’یہ تاثر غلط ہے کہ کسی ایک جج کے لیے قانون سازی کی جاری ہے۔ یہ میثاق جمہوریت اور اٹھارہویں ترمیم میں بھی شامل تھا۔ ایک معزز جج کو متنازع  بنایا جا رہا ہے۔ تحریک عمران انصاف کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے جبکہ وہ پی ٹی آئی کے لوگ نجی محفلوں میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ  آئینی عدالتیں بننی چاہییں۔ لیکن عوام میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں۔ ہم نے انہیں کہا کہ تجاویز دیں بہتری کے لیے تنقید برائے تنقید نہ ہو۔ ہم تو فیملی کورٹس بھی بنانا چاہتے ہیں تاکہ عام آدمی کو فوری انصاف مل سکے۔‘

سابق صدر سپریم کورٹ بار پی ٹی آئی  رہنما حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’آئینی ترامیم کو خفیہ رکھنے سے ان کی بدنیتی سامنے آگئی، ان آئینی ترامیم کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ انہیں پاس نہیں ہونے دیں گے۔ عمران خان نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ ہم بھی لاہور کے بعد کراچی میں وکلا کنونشن کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف وکلا تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔‘

حامد خان کے بقول، ’ہمیں ایسا کوئی آئینی پیکیج قبول نہیں ہے جو آئین کو ہی پامال کرنے کا باعث ہو۔ کیونکہ ترمیم پر بحث ہوتی ہے اسے اوپن رکھا جاتا ہے۔ مگر خفیہ طریقوں سے بننے والے قوانین نیک نیتی پر مبنی نہیں ہوتے اس لیے ہم کسی آئینی عدالت کو نہیں مانتے۔‘

الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے  ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو تفصیلی فیصلے میں مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو فراہم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس حوالے سے ابھی تک الیکشن کمیشن نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا نوٹیفکیشن کرے تو حکومت کے لیے مشکل برقرار رہ سکتی ہے۔

لیکن الیکشن کمیشن نے اگر سپیکر قومی اسمبلی کے خط پر عمل کرتے ہوئے یہ مخصوص نشستیں دوبارہ پہلے والی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا نوٹیفائی کر دیا تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو سکتی ہے۔

پریکٹس ایند پروسیجر آرڈیننس کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیٹی نے 63 اے کی تشریح سے متعلق اپیل پر سماعت 30 ستمبر کو مقرر کر دی ہے اور اس کے لیے اپنی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ بھی تشکیل دے دیا ہے۔

اگر عدالت فلور کراسنگ کے ذریعے دیے گئے ممبران کے ووٹ گنتی میں شمار کرنے کا قانون بحال کر دیتی ہے تو حکمران اتحاد کو دوسرے اراکین اسمبلی ساتھ ملانے کا موقع مل سکتا ہے اور دو تہائی اکثریت پوری ہو سکتی ہے۔

حکومتی اتحاد کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن آئینی ترمیم میں تحفظات دور ہونے کے بعد حکومت کے اس آئینی پیکج کی منظوری میں حمایت پر رضا مند ہو جائیں۔

رانا ثنا اللہ سے حکومتی دعوے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’بس ہم نے تیاری کر رکھی ہے جو وقت آنے پر سب کو معلوم ہو جائے گا۔‘

آئینی عدالتوں کا قیام نئی روایت ہے؟

حامد خان نے کہا کہ انڈیا، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں آئینی عدالت نہیں ہے۔ یہاں بھی آئینی عدالت کی ضرورت نہیں اس کا مقصد آئین کو تباہ کرنا ہے۔

سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین کو وقت کے ساتھ بہتر کرنا یا اس میں ترامیم لانا حکومت کا پارلیمانی حق ہے جو انہیں آئین پاکستان دیتا ہے۔ جہاں تک بات ہے آئینی عدالتوں کی تو ان کے قیام پر سپریم کورٹ بار یا پاکستان بار کونسل کو کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ ہمیں جو ججز کی تعیناتی اور عدالتوں کے اختیارات وغیرہ پر بتایا گیا ہم اس پر اپنی تجاویز تیار کر رہے ہیں۔‘

امجد شاہ کے مطابق ’آئینی عدالتیں شروع سے ہی بار ایسوسی ایشنز کا مطالبہ رہا ہے۔ کیونکہ موجودہ نظام میں کیسوں کا التوا حد سے بڑھ چکا ہے۔ اس لیے ہم اپنی تجاویز تیار کر کے حکومت کو دیں گے جو ان کے مطابق اپنے آئینی ترامیمی پیکج میں تبدیلی کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کرسکتی ہے 1973 سے اب تک آئین میں 25 ترامیم کی گئی ہیں جن میں کوئی ترمیم آئین سے متصادم نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی روایت نہیں بلکہ آئینی عدالت جرمنی، روس، بیلجیئم، لگزمبرگ، ترکی، مصر، جنوبی افریقہ، پرتگال، سپین اور آسٹریا سمیت دنیا کے 85 ممالک میں موجود ہیں۔ دنیا میں پہلی آئینی عدالت 1919 میں آسٹریا میں قائم کی گئی تھی۔‘

تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب  2006میں مشرف دور میں چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا اس میں نواز شریف، بے نظیر بھٹو سمیت عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اتفاق کرتے ہوئے دستخط کیے تھے۔ آئینی عدالتوں کا فیصلہ تو اس وقت ہوا تھا لیکن سیاسی اور عدالتی مداخلت کے باعث یہ عدالتیں وجود میں نہیں آئیں اب اگر یہ اچھا کام ہونے لگا ہے جو وقت کی ضرورت ہے تو پی ٹی آئی من پسند چیف جسٹس بنانے کے لیے مخالفت کر رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں جس طرح چیف جسٹس کے عہدے کو استعمال کر کے سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے اور لوگوں کو سالوں نہیں بلکہ دہائیوں انصاف سے محروم رکھا گیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے آئینی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں لہذا تمام سیاسی جماعتوں کو متفق ہوکر اتفاق رائے سے بنانی چاہییں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست