سر سید احمد خان بھی ان بزرگوں میں سے ہیں جن کے کارنامے ہمیں معاشرتی علوم میں پڑھائے جاتے تھے اور یہ بتایا جاتا تھا کہ غدر کے بعد مسلمانوں کی بقا میں سر سید کے علیگڑھ کالج اور بعد ازاں یونیورسٹی کا کیا کردار تھا۔
ہمارے ماموں انجینیئر تھے اور علیگ تھے۔ چچا بھی اس درس گاہ کا دروازہ پار کر چکے تھے مگر ان دونوں بزرگوں اور معاشرتی علوم کی مشترکہ کوششوں اور حالی کی ’حیات جاوید‘ کے سرسری مطالعے کے باوجود سر سید میرے لیے بھکی ڈاڑھی والے ایک کتابی ہیرو ہی رہے، یہاں تک کہ پچھلے دنوں کتابوں کی چھانٹی کے دوران ’آثارا لصنادید‘ کی جلد ہتھے چڑھی۔
کتابوں کا میرے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ چُھپ جاتی ہیں۔ سالہا سال کسی مچان، کسی الماری میں دبک کے پڑی رہتی ہیں اور پھر ایک برس جوں ہی ہارسنگھار میں پھول آنے لگتے ہیں، کوئی کتاب اچانک کسی کونے سے نکل کے سامنے آ جاتی ہے۔
اس کتاب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ انجمن ترقی اردو کی چھاپی ہوئی اس رنگین کافی ٹیبل کتاب کا یہ خوبصورت ایڈیشن پچھلے دنوں اچانک ہی سامنے آیا۔
کتاب کیا ہے دلی اور اس کے گرد پھیلی قدیم عمارتوں کے مرصع تذکرے اور ہاتھ کے بنے نقشوں اور تصاویر سے مزین ایک ایسی اجنتا ہے جس سے باہر نکلنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔
سر سید، جن کا نام اس کتاب کے پہلے ایڈیشن پہ جوادالدولہ، سید احمد خان صاحب بہادر عارف یار جنگ سابق منصف دارالخلافہ شاہجہاں آباد درج ہے، نثر کے دھنی تھے۔
دیگر علوم کے ساتھ انہوں نے طب اور ریاضی میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔
غدر سے قبل انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ انگریز بہادر کے ترقیاتی کام قدیم دلی کے آثار کو تیزی سے نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔
یہ کتاب مرتب کرنے سے پہلے بھی وہ آرکیالوجی سوسائٹی میں ہستناپور کی اینٹوں پہ ایک بہترین مقالہ پڑھ چکے تھے۔ ’آثار الصنادید‘ چار حصوں میں لکھی گئی ہے۔
پہلے حصے میں شہر پناہ کے باہر کی عمارتوں کا حال ہے، دوسرے میں قلعہ معلی کی عمارات، تیسرے میں شہر کی عمارات اور چوتھے میں دلی والوں کا ذکر ہے۔
مولفین نے سر سید کی زبان کو سلیس کرنے کی کوشش کی ہے۔ راقم کے خیال میں نہیں کرنی چاہیے تھی۔
کتاب میں بیان کردہ ہر عمارت کی تصویر بھی شامل ہے۔ مولفین نے انہیں رنگین کیا ہے اور درخت بھی شامل و تبدیل کیے ہیں۔ راقم اس بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہے۔
عمارات کے یہ نقشے سر سید نے بڑی جانفشانی سے بنوائے تھے۔ کچھ نقشے شاہ رخ اور مظہر علی کے ہیں۔
کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے لیے سید احمد نے جو نقشے بنوائے تھے وہ غدر میں تلف ہوئے، پہلا آڈیشن بھی جو 1854 میں نولکشور پریس سے چھپا تھا غدر کی نذر ہوا۔
کتاب کے کچھ حصے بقول سر سید مولانا امام بخش صہبائی کے تحریر کردہ ہیں۔
ممکن ہے یہ حصے بھی سلیس کر دیے گئے ہوں۔ بہرحال کتاب کا یہ نیا خوبصورت ایڈیشن خاصے کی چیز ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2017 میں سر سید کے 200 سالہ یوم ولادت پہ ڈاکٹر فاطمہ حسن کے زیر اہتمام سحر انصاری اور حیات رضوی کی مشاورت اور مدد سے یہ کتاب شائع ہوئی۔
کتاب کے دیباچے کے مطالعے کے دوران ایک نثر پارے نے روک لیا۔ آپ بھی پڑھیے اور اگر خدا توفیق دے تو پوری کتاب پڑھیے اور زیادہ ہی فرصت ہو تو ’حیات جاوید‘ بھی پڑھ ڈالیے، ملاحظہ ہو:
’جب یہ نسخہ مرتب ہو چکا اور اس حسن شاہد ان ملک حسیناں سے بھی زیادہ نظر آیا تو خیال گزرا کہ اس کو کسی بلند مرتبے کے نام سے منسوب کیا جائے، نیز کسی مقتدر ہستی کی خوبیوں سے مزین کیا جائے۔
’اسی اثنا میں عالم بالا سے ندا آئی اور عالم علوی سے نوید پہنچی کہ اس شاہد حجلہ غیب کا زیور اس نام نامی سے ہو سکتا ہے جو عالی منزلت اور گردوں بارگاہ ہے، جس کا خیمہ جاہ ملک نہم سے بالاتر ہے، اس کے ادنی خادم کا مرتبہ سکندر و دارا سے بالاتر ہے، وہ ایسا اقبال مند ہے کہ اگر دارا کو اس کی اعانت پہنچتی تو وہ سکندر سے شکست نہ کھاتا اور اگر افراسیاب کو اس کی مدد حاصل ہوتی تو وہ رستم سے نہ ہارتا، یعنی ولی جہاں دراز، دربان صاحب دولت و اقبال اور خداوند جاہ و جلال، حاکم محاکم جہانبانی، عدل پرور، انصاف گستر، معظم الدولہ، امین الملک، اختصاص یار خاں، فرزند ارجمند بجاں، پیوند سلطانی، سر طامس تیافلس مٹکاف صاحب، بارونٹ بہادر صاحب کلاں بہادر، دارالخلافہ شاہجہاں آباد، دام اقبالہ۔‘
اس کتاب کا فرانسیسی ترجمہ موسیو گارساں دتاسی نے سید صاحب کی زندگی میں ہی 1861 میں کر ڈالا تھا۔
انگریزی ترجمے کی بنا تو پڑی تھی مگر ہوا یا نہیں، راقم اس بارے میں لاعلم ہے۔
گارساں دتاسی کے فارسی ترجمے کی بنا پہ ہی سید صاحب کو رائل ایشیاٹک سوسائٹی کا ڈپلومہ دیا گیا تھا۔ ( ترجمہ بہت ضروری ہے صاحبو)
امید ہے انجمن کے پاس قدیمی نسخہ اب بھی موجود ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی صاحب دل پبلشر اسے اصل شکل میں بھی شائع کرے تاکہ مظہر علی اور شاہ رخ کے خاکے اور سر سید کی نثر اصلی ڈھنگ میں بھی نظر آ سکے۔
نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔