آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کا پہلا دن، ندیم انجم کے تین سال کیسے تھے؟

پاکستان میں سیاسی حالات طویل عرصے سے ایسے ہیں کہ ادارے چاہے فوج ہو یا عدلیہ تعریف اور تنقید کے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بظاہر نہ ختم ہونے والے ایک سلسلے میں پھنسے رہتے ہیں۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم احمد انجم (سکرین گریب)

پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم 29 ستمبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ لیفٹینینٹ جنرل عاصم ملک نے آج سے عہدہ سنبھال لیا ہے۔

تین برس تک ڈی جی آئی ایس آئی رہنے والے لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم کو 20 نومبر 2021 کو اس عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ انہوں نے گذشتہ برس ستمبر میں سبکدوش ہونا تھا لیکن ناگزیر وجوہات کے باعث ان کے عہدے کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی گئی۔

لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم کا دور بطور ڈی جی آئی ایس آئی کیسا رہا؟ ان کے سامنے کیا چیلنجز تھے اور انہوں نے ان اہداف کو کیسے حاصل کیا؟

گذشتہ تین سال کو پاکستان میں سیاسی اتار چڑھاؤ کے عرصہ کے طور دیکھا جاتا ہے، جس دوران ملک میں عام انتخابات جیسے بڑے سیاسی عمل کے علاوہ بڑی بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم کے ماتحت ہوتا ہے اور اس عہدے کے لیے انتخاب بھی ملک کے چیف ایگزیکٹیو کو ہی کرنا ہوتا ہے۔

ندیم انجم کی ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تعیناتی کے وقت ہی اس وقت کی تحریک انصاف کی حکومت نے اعلامیہ جاری کرنے کے معاملے کو طول دیا تھا۔ تاہم اگلے برس ملکی تاریخ کی پہلی کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں سابق وزیراعظم عمران خان اپنے منصب سے اتار دیے گئے۔

تیرہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت بنی، جب کہ رواں برس فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں اسی اتحاد کی حکومت دوبارہ بنی البتہ اس میں فضل الرحمٰن کی جعمیت علمائے اسلام جماعت شامل نہیں ہے۔ عام انتخابات کے بعد سے وہ حکومت کے بڑے ناقد کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں اور دوبارہ شفاف انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور حکومت جانے کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فوجی قیادت اور انٹیلجنس ایجنسی کے سربراہ پر الزامات لگائے گئے اور تنقید بھی کی گئی۔

انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کی گذشتہ تین برسوں کی کارکردگی سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو نے دفاعی امور کے ماہرین سے گفتگو کی۔ 

چار سربراہان کے ’یادگار‘ ادوار

گذشتہ تین دہائیوں سے دفاعی امور کو قریب سے دیکھنے والے سینیئر صحافی متین حیدر نے کہا کہ ’پاکستان میں بہت سے آئی ایس آئی کے سربراہ آئے اور گئے لیکن ان میں چار ادوار ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔ ایک احمد شجاع پاشا کا دور، جس میں ایبٹ آباد کا آپریشن ہوا تھا۔ دوسرا لیفٹینینٹ جنرل ظہیر الاسلام، جن کے دور میں 2014 کا دھرنا ہوا، تیسرا لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید کا دور، جس میں 2018 کے انتخابات ہوئے اور لیفیٹینینٹ جنرل ندیم انجم کا دور جس میں 2024 کے عام انتخابات ہوئے تھے۔

متین حیدر کا کہنا تھا: ’لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم کے تین سال کا عرصہ چیلنجز سے بھرپور رہا اور انہیں جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا وہ حکومت کی تبدیلی کا تھا، جس کی بعد ازاں انہوں نے وضاحت بھی دی تھی۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے رجیم کی تبدیلی کے بعد پاکستان فوج اور انٹیلجنس ادارے کے سربراہ کے خلاف بہت شدید پروپیگنڈا کیا تھا۔

’ان حالات واقعات کے تناظر میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے کسی سربراہ کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ سامنے آ کر پریس کانفرنس کرنا پڑی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس پریس کانفرنس میں اعتراف بھی کیا گیا کہ عمران خان ان کا منصوبہ تھا، جس پر انہیں اب ندامت ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آئے تھے اور پھر بعد میں جس ادارے کی مدد سے اقتدار حاصل کیا انہی کے خلاف ہو گئے۔‘

’بیرونی طور پر دیکھا جائے تو ان تین سالوں میں جو ایک چیلنج تھا وہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مغربی سرحد پر سکیورٹی حالات تھے۔ مغربی سرحد کی وجہ سے ملک میں سکیورٹی صورت حال دوبارہ بگڑنی شروع ہوئی، جس سے نمٹنے کی بھی حکمت عملی اختیار کی گئی۔‘

’ایک بمپی رائیڈ‘

 دفاعی امور کے سینیئر صحافی محمد عمران نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم کا تین سال کا دور بمپی رہا۔ جب انہوں نے ڈی جی آئی ایس کا عہدہ سنبھالا اس وقت پاکستان کو تین چیلنجز کا سامنا تھا۔ ’ایک تو داخلی سکیورٹی کا سامنا تھا، دوسرا معاشی ایمرجنسی تھی جب کہ تیسرا سرحدوں پر بڑھتی ہوئی مشکلات تھیں۔‘

اس دور میں پہلی مرتبہ اس سال جنوری میں ایران نے بلوچستان میں مبینہ ’جیش العدل‘ کے ٹھکانوں کو ’میزائل اور ڈرون‘ سے نشانہ بنایا تھا۔ ایران سے ملحقہ ضلع پنجگور میں کیے جانے والے حملے میں دو بچیوں کی موت ہوئی تھی۔ اس حملے کا پاکستان نے جواب بھی دیا تھا۔

محمد عمران کا کہنا تھا کہ خصوصاً افغانستان اور ایران بارڈر پر چیلنجز بڑھے تھے اور ان سے نمٹنے کے لیے اہم اور اضافی اقدامات کی ضرورت تھی، جن کے باعث ادارہ عوامی سطح پر زیر بحث بھی آیا اور اس پر تنقید بھی ہوئی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کبھی لاپتہ افراد کے معاملے پر تنقید ہوئی تو کبھی ایک سیاسی جماعت پر کریک ڈاؤن کے حوالے سے ادارے کو زیر عتاب لایا گیا۔

حقوق انسانی کی تنظیموں کا دعوی ہے کہ ملک میں ان تین سالوں میں جنری گمشدہ افراد کی صورت حال میں کوئی بہتری نہیں آئی اور لوگ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی وجہ سے بھی اٹھائے گئے اور پھر واپس لوٹ آئے۔ حکومت تاہم اس تاثر سے متفق نہیں۔

’تحریک عدم اعتماد کی بات کریں تو اس سب کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اندرونی سطح پر بہت زیادہ چیلنجز تھے۔ ماضی میں اس طرح کے اندرونی چیلنجز کبھی نہیں تھے کہ ایک سیاسی جماعت ادارے کے خلاف کھڑی ہو جائے۔ اس صورتحال میں جس طرح کے فیصلے لیے گئے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو پلاننگ کی گئی ان سب میں واضح سوچ تھی۔‘

’نو مئی نے مشکل کھڑی کی‘

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ ’ڈی جی آئی ایس آئی کے دور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو داخلی اور بیرونی معاملات ایک بہتر تقسیم ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’داخلی طور پر سیاسی معاملات کی وجہ سے ڈی جی آئی ایس آئی سیاسی صورت حال میں مصروف رہے ہیں کیونکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے ان کو متنازع کرنے کی کوشش کی تھی۔ بلکہ ادارے کے اندر کے کچھ لوگ جیسے کہ لیفٹینینٹ جنرل (ر) فیض حمید نے بھی انہیں متنازع بنانے کی کوشش کی۔ ادارے کی اندر کے کچھ لوگ اور ریٹائرڈ فوجی افسران بھی مشکلات پیدا کر رہے تھے۔‘

ڈاکٹر قمر چیمہ کے خیال میں داخلی سطح پر بلوچستان کا معاملہ بھی چیلنجنگ رہا، جب کہ نو مئی کا واقعے نے بھی ادارے کے لیے مشکل صورت حال کو جنم دیا، جس میں حاضر سروس اعلی فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ بھی ملوث نکلے تھے۔

وزیر اعظم شبہاز شریف فوجی قیادت کے معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد کا کئی بار ذکر کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر قمر چیمہ نے مزید کہا کہ ’معاشی امور بھی ایک اہم معاملہ تھا۔ میکرو اکنامکس استحکام میں ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی محنت شامل رہی۔

’اس کے علاوہ پاک ایران تعلقات کی خرابی کے بعد انہیں درست سمت پر لانا بھی ڈی جی آئی ایس آئی کا کریڈٹ تھا، جب کہ انڈیا کے ساتھ جنگ بندی تو جاری رہی لیکن بیک ڈور مذاکرات پر کچھ پیش رفت نہ ہو سکی۔‘

تجزیہ کار کے مطابق: ’اس کے علاوہ پاکستان امریکہ تعلقات کی بحالی میں بھی ڈی جی آئی ایس آئی کی حکمت عملی کا کردار اہم رہا، جب کہ غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف کارروائی اور انہیں واپس بھیجنا ایک سخت فیصلہ تھا لیکن انہوں نے اس پر عمل درآمد کروایا۔‘

’کٹھن حالات میں کمان‘

دفاعی امور کی سینیئر صحافی سمیرا خان نے کہا کہ ’پاکستان کے سبکدوش ہونے والے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے یقیناً بہت کٹھن حالات میں کمان سنبھالی اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ فیک نیوز اور پروپیگنڈا کا سب سے زیادہ شکار وہ اور موجودہ آرمی چیف رہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’جنرل ندیم انجم کے لیے مختلف سمتوں سے محاذ کھلے تھے، جن میں اندرونی و بیرونی تمام مشکلات ترجیحی بنیادوں پر حل کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ 

’سوشل میڈیا پر شدید ترین مہم بھی ان کے ہی خلاف چلائی گئی، جس کا انہوں نے یہ کہہ کر جواب دیا کہ میرا فوکس اس ذمہ داری پر ہے، جو پاکستان کے لوگوں کی جانب سے دی گئی ہے اور یہ ذمہ داری بہت اہم ہے اس لیے میرے پاس پروپیگنڈا پر دھیان دینے کا وقت نہیں۔‘

سمیرا خان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی منظرنامہ یقیناً بہت پیچیدہ رہا لیکن بیرونی سازشوں کے اس منظرنامے میں ایک فعال کردار پر سوالیہ نشان اب بھی موجود ہے، جس کا انہیں یقیناً ادراک تھا اور اس کا ایک ثبوت کورٹ مارشل اور سزاؤں کا سامنا کرنے والے سابق فوجی افسران کی بیرون ملک بیٹھ کر فوج کی قیادت پر ہرزہ سرائی سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح نو مئی کے اصل ماسٹر مائنڈ اور دیگر کرداروں کو سامنے لانا بھی ایک چیلنج تھا۔‘

سینیئر تجزیہ نگار امتیاز گل نے کہا کہ ’سابق ڈی جی آئی ایس کو بے مثال تنازعات، اپوزیشن پر وحشیانہ حملے اور اپنے ادارے کے ساتھ وفاداری کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایسی کوئی چیز نہیں جسے ان کے احباب فخر کے ساتھ نمایاں کامیابیوں کے طور گنوا سکیں۔‘

پاکستان میں سیاسی حالات طویل عرصے سے ایسے ہیں کہ ادارے چاہے فوج ہو یا عدلیہ تعریف اور تنقید کے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بظاہر نہ ختم ہونے والے ایک سلسلے میں پھنسے رہتے ہیں۔ وہ فوج کی ساکھ کی بحالی جیسے ایہم مقاصد اب نئے سربراہ کو ’ورک ان پروگریس‘ کے طور پر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان