کاش میں بھی سیدھی سادی لڑکی ہوتی

ان ہیروئینوں کو دیکھنے کے بعد مجھے اپنا آپ انتہائی مکار، چالاک اور بھونڈا لگ رہا ہے۔ نہ مجھ میں ان جیسی نزاکت ہے، نہ ان جیسا بھولا پن ہے اور نہ ہی ان جیسا صبر ہے۔

ایک بے بس اور بے چاری عورت جس کے ساتھ قسمت اور معاشرہ بس برا ہی کر رہے تھے  لیکن وہ ہمت ہارنے کی بجائے ڈٹ کر ہر مشکل کا سامنا کر رہی تھی (ڈراما ’کبھی میں کبھی تم‘ کا پوسٹر/ اے آر وائے انسٹاگرام)

میں کافی عرصے سے کوئی بھی پاکستانی ڈرامہ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ کچھ فرصت دستیاب ہوئی تو دو ڈرامے دیکھنے شروع کیے۔

ایک ڈرامے کو جدید دنیا کے مطابق بنانے کی کوشش کی گئی تھی البتہ اس کی کہانی وہی روایتی تھی۔

ایک بے بس اور بے چاری عورت جس کے ساتھ قسمت اور معاشرہ بس برا ہی کر رہے تھے لیکن وہ ہمت ہارنے کی بجائے ڈٹ کر ہر مشکل کا سامنا کر رہی تھی۔ 

شادی سے کچھ دن پہلے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر اس کی شادی ایک نکمے لیکن ذہین انسان سے ہو جاتی ہے۔ اس کا شوہر رات بھر ویڈیو گیم کھیلتا ہے اور دن بھر سوتا ہے۔ اس کے گھر والے اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکے ہیں مگر اس پر کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی زندگی اپنے اصولوں کے مطابق گزارنا چاہتا ہے۔

 شادی کے بعد بھی وہ اپنی روش پر قائم رہتا ہے لیکن ہماری ہیروئین اپنی مسلسل کوششوں سے اسے ذمہ دار بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس کی کوششیں اس قدر کامیاب ہوتی ہیں کہ وہ اس کی خاطر اپنے گھر والوں سے بھی لڑ پڑتا ہے۔

ایسے آدمی ہر عورت کی خواہش ہوتے ہیں، پر افسوس وہ صرف افسانوں اور ڈراموں کی دنیا میں ہی ملتے ہیں۔ اصل دنیا میں انہیں ڈھونڈے کی سعی ناکام ہی رہتی ہے۔

 اس ڈرامے کا ہیرو، ہیروئین کا ہر جگہ ساتھ دیتا ہے۔ ہماری ہیروئین بھی صبر کا پیکر ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کو بھی سنبھال رہی ہے۔ سسرال کی ڈیوٹی بھی سر انجام دے رہی ہے۔ اپنے نکمے شوہر کو بھی ذمہ دار بنا رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک نوکری اور بھاری بھرکم ڈگری بھی کر رہی ہے۔

غالباً فارغ وقت میں قریبی بھٹے پر اینٹیں بھی بناتی ہو گی۔ ڈرامہ اس بارے کچھ زیادہ نہیں بتاتا۔

ہیروئین کے روایتی سانچے کو توڑنے کے لیے اسے کچھ جاندار مکالمے تھما دیے گئے ہیں جو کبھی کبھار اس کی صورت حال میں عجیب سے لگتے ہیں۔

خیر، ہم اسی میں خوش ہیں۔ کچھ تو مختلف دکھایا جا رہا ہے۔  

دوسرا ڈرامہ شدید روایتی قسم کا ہے۔ ایک طرف امیر گھرانہ ہے تو دوسری طرف غریب گھرانہ۔

امیر گھر کے افراد کا وہی روایتی سا رہن سہن دکھایا گیا ہے۔ بڑا گھر، بڑی گاڑیاں، سوئمنگ پول، نائٹ گاؤن، کھانے کے لیے چھری کانٹے کا استعمال، مردوں کا ہر وقت میٹنگ میں رہنا اور خواتین کا ہر وقت خلقِ خدا کی خدمت میں مصروف رہنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری طرف غریب گھر میں پرانا نظام چل رہا ہے۔ وہاں غالباً کانٹے کا استعمال انڈا پھینٹنے کے لیے بھی نہیں کیا جاتا۔

وہ غریب ہیں لیکن ان کے گھر میں بڑے بڑے کمرے، بھاری بھرکم مسہریاں، ان پر سفید چادر کی کنوپیاں، غرارے، دوپٹے اور جانے کیا کیا موجود ہے۔

غرارہ پچھلے کچھ سالوں سے روزمرہ استعمال کے کپڑوں میں عام استعمال ہو رہا ہے لیکن چاہے غرارہ خود بنوایا جائے یا بنا بنایا خریدا جائے، ایک اچھی خاصی رقم صرف ہو جاتی ہے جو ایک عام گھرانہ آرام سے افورڈ نہیں کر سکتا۔

لیکن یہاں دادی جان ہر لباس کے ساتھ غرارہ پہن رہی ہیں۔ اب یہ اللہ ہی جانے کہ اس مہنگائی کے دور میں وہ گھر ان کے شاہانہ لباس کس طرح افورڈ کر رہا ہے۔

اس ڈرامے کی ہیروئین انتہائی سادہ اور بھولی ہے۔ کالج جاتی ہے تو ایک بڑا سا سکارف بے تکے پن سے اوڑھ لیتی ہے۔ وہاں سب اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ ہر طعنہ، ہر برا رویہ پورے صبر سے برداشت کرتی ہے۔

ایک دن کچھ لڑکیاں اسے کالج کے باتھ روم میں بند کر کے چلی جاتی ہیں۔ اس کے گھر والے اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ ان کے ذہن میں بھی نہیں آتا کہ وہ کالج انتظامیہ کے ساتھ کالج کی چھان بین کریں۔ وہ فوراً ہیرو کو فون کر دیتے ہیں، جس کا ہیروئین سے دو سرسری ملاقاتوں کے علاوہ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

پھر بھی وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کی سیدھی سادی سی ہیروئین گھر اور کالج کے علاوہ کہیں نہیں جاتی۔ وہ فوراً کالج پہنچتا ہے اور ہیروئین کو باتھ روم سے بازیاب کرواتا ہے۔

دوسری طرف ہیروئین بھی باتھ روم کا دروازہ کھلتا دیکھ کر سیدھے ہیرو کے سینے سے جا ٹکراتی ہے۔ وہ سین دیکھتے ہوئے مجھے اپنے تعلیمی اداروں میں گزرے وقت پر شدید افسوس ہوا۔ میرے ساتھ کبھی ایسا کیا ویسا واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔

اس واقعے کے بعد ہیروئین کی شادی ہیرو سے ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد معاملات وہی بے چارگی والے چل رہے ہیں۔ سخت سسرال اور تھوڑا بہت ساتھ دینے والا شوہر۔ آنے والی اقساط میں ہیروئین کا خدمت موڈ آن ہو جائے گا، پھر ہم ان کے سسرالیوں کو ایک ایک کر کے اس کے آگے ڈھیر ہوتا ہوا دیکھیں گے۔

ان ہیروئینوں کو دیکھنے کے بعد مجھے اپنا آپ انتہائی مکار، چالاک اور بھونڈا لگ رہا ہے۔ نہ مجھ میں ان جیسی نزاکت ہے، نہ ان جیسا بھولا پن ہے اور نہ ہی ان جیسا صبر ہے۔ ان خواتین کے آگے تو اصغری بھی رہ جائے گی۔ میں اور مجھ جیسی خواتین تو کسی کھاتے میں ہی نہیں آتیں۔

ہم بس انہیں دیکھ کر جلے دل کے پھپھولے ہی پھوڑ سکتی ہیں۔ انہیں پہلے دیکھا ہوتا تو شاید ہم بھی زندگی ایک الگ ڈھب پر گزارتے۔ ہمارے بھی قدر دان ہوتے اور ہم بھی مشکلات سے گزارنے کے بعد آسانی دیکھتے۔ فی الحال ہم ایک مشکل کے بعد دوسری مشکل سے نمٹ رہے ہیں اور قوی امکان ہے کہ ایسا کرتے کرتے ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ