دنیا نے شاید پہلی مرتبہ منگل کی رات اپنے ٹی وی اور موبائل فون کی سکرینوں پر ایک جنگ کسی ویڈیو گیم کی طرح بیٹھ کر دیکھی۔
اسرائیل نے جس طرح بےشرمی سے میدان جنگ پچھلے ایک سال سے گرم کر رکھا تھا اس کے ردعمل میں یہ ایک قدرتی عمل تھا۔ غیرمشروط امریکی سرپرستی میں وہ نڈر ہوتا جا رہا تھا۔ غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے بعد اب وہ لبنان پہنچا ہوا ہے۔ اسے ایک شٹ اپ کال کی اشد ضرورت تھی۔ اسی لیے مسلم دنیا نے اس پر وہی ردعمل ظاہر کیا جو فطری تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل اس وقت اپنے ردعمل کا جائزہ لے رہا ہے، خاص طور پر وزیر اعظم کے اس بیان کی روشنی میں کہ ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس کی قیمت ادا کرے گا۔ اب اگر اسرائیل ایران کو براہ راست جواب دیتا ہے تو اس جنگ کے پھیلنے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
تاہم ایران اب بھی بڑی احتیاط سے نیا قدم اٹھایا۔ اس نے تقریبا دو سو بیلسٹک میزائل تو داغے ہیں لیکن اس سے زیادہ اس نہ کچھ نہیں کیا۔ محض اس سال اپریل میں اسرائیل پر پہلے حملہ کے مقابلے میں گولہ بارود کی مقدار بڑھائی ہے اور کچھ نہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ بیلسٹک میزائل کو ایران سے نکل کر اسرائیل میں اترنے میں 12 منٹ لگتے ہیں، تو ان سے نمٹنے کا اسرائیل کے پاس مناسب وقت تھا۔ اس کے لیے کوئی زیادہ حیرت انگیز نہیں تھا۔
ماضی کے برعکس یہ بیلسٹک میزائل اس مرتبہ ایک محدود علاقے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں گرے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا تجربہ اسرائیل نے 76 سالوں میں پہلے کبھی نہیں کیا۔ لہٰذا یہاں بھی نہایت سوچ بچار کے بعد ایک نئی حد عبور کر لی گئی ہے۔ یہ ایک نئی حد ہے۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس نے اسرائیل کے صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم اسرائیل نے اب تک کے نقصانات کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں بتایا۔ سخت خاموشی میں صرف مغربی کنارے میں ایک شخص کی موت کی تصدیق ہوسکی ہے اور کچھ نہیں۔
اگرچہ دنیا نے ’آہنی گنبد‘ کے ذریعے بہت سے تل ابیب کو بڑی حد تک بچایا لیکن ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں بعض میزائل شہری علاقوں میں گرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
اسرائیل پر جس طرح کا جنگی جنون سوار ہے اس میں اس کی جوابی کارروائی یقینی ہے۔ میرے لیے واحد سوال اس کے وقت، ہدف اور دائرہ کار کا ہے۔ آج سے یہودیوں کا نیا سال روش ہشانہ شروع ہوتا ہے، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب یہودی خاندان اپنے اہل خانہ کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب اس تازہ صورت حال میں کیا وہ یہ تعطیلات اپنے محفوظ کمروں میں گزاریں گے یا نہیں؟ تعطیلات بڑھانے سے ظاہر ہوگا کہ آیا اسرائیل جوابی کارروائی کرے گا یا نہیں۔
حزب اللہ اس موقع پر کہاں کھڑا ہے اور کیا کرسکتا ہے، خاص طور پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قبضے اور جنوبی لبنان میں ’محدود زمینی‘ آپریشن کے پیش نظر؟ ظاہر ہے اس کی قیادت ختم کر دی گئی ہے۔ ماضی میں اسرائیل اس کے ایک عاد رہنما کی کی ٹارگٹ کلنگ کرتا رہا ہے لیکن ہم نے کبھی بھی اکثر اعلیٰ قیادت کو مرتے ہوتے نہیں دیکھا، جس میں خود سربراہ شیخ حسن نصراللہ بھی شامل تھے۔
آج وائٹ ہاؤس، سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پینٹاگون میں امریکی حکام نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اس وقت دیرپا امن کے لیے سفارتی حل ہی واحد راستہ ہے۔ بدقسمتی سے مجھے نہیں لگتا کہ اس سے فوری طور پر کوئی فائدہ ہوگا۔ غزہ میں جنگ بندی کے لیے طویل عرصے سے سفارتی کوششیں کی گئی ہیں لیکن یہ بیل کسی منڈھیر نہیں چڑھی۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
کچھ مقامات پر فریقین جنگ بندی کے انتہائی قریب تھے اور امریکہ کے پاس یقینی طور پر ایسا کرنے کے لیے توانائی کی کمی نہیں تھی، لیکن وہ آخر میں اس معاملے کو اختتامی لائن تک نہیں لا سکا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا اس پر بہت زیادہ سوالات اٹھیں گے۔ اس کی ایک وجہ حماس بھی ہے جو اپنی شرائط پر جنگ بندی چاہتا تھا۔