چیونٹیوں نے ڈائنوسار فنا کرنے والے سیارچے سے فائدہ اٹھایا: تحقیق

ڈائنوسارز کو تباہ کرنے والے سیارچوں کے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے پھپھوندی کے پنپنے کے لیے مثالی حالات پیدا ہوئے۔

30 جنوری، 2024 کی اس تصویر میں انڈونیشیا کے جنگلات میں ایک چیونٹی کو پودے کا رس نکالتے دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ چیونٹیوں نے چھ کروڑ 60 لاکھ سال قبل ایک سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے بعد فارمنگ شروع کی، جس نے زمین سے ڈائنوسارز کا صفایا کر دیا تھا۔

سائنسدانوں کے مطابق، چیونٹیوں کی کالونیوں نے پھپھوندی (فنگس) کی کھیتی شروع کی کیونکہ وہ اس وقت اپنے ’عروج‘ پر تھی۔

اس سیارچے نے عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر معدومیت کا سبب بننے کے باوجود چیونٹینوں کے پھلنے پھولنے کے لیے بہترین حالات پیدا کیے۔

محققین کا کہنا ہے کہ بہت سے جانور انسانوں کے وجود سے بہت پہلے سے ہی اپنی خوراک خود اگا رہے ہیں۔

امریکہ کے نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں چیونٹیوں پر تحقیق کے کیوریٹر ٹیڈ شولٹز کا کہنا ہے کہ ’چیونٹیاں کھیتی باڑی اور پھپھوندی کی کاشت کاری انسانوں کی موجودگی سے بھی بہت عرصہ پہلے سے کر رہی ہیں۔

’ہم شاید گذشتہ چھ کروڑ 60 لاکھ سالوں میں ان چیونٹیوں کی زرعی کامیابی سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’معدومی کے واقعات زیادہ تر جانداروں کے لیے بہت بڑی تباہی ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن یہ حقیقت میں دوسروں کے لیے مثبت ہوسکتے ہیں۔

’کریٹیشیئس کے اختتام پر ڈائنوسار بہت اچھا نہیں کر سکے، لیکن پھپھوندی نے ایک عروج دیکھا۔‘

سیارچے کے اثرات سے فضا دھول اور ملبے سے بھر گئی، جس نے سورج کی روشنی اور سالوں تک فوٹو سینتھیسس کو روک دیا، جس سے سیارے پر پودوں کی تقریباً نصف اقسام ختم ہو گئیں۔

تاہم یہ وقت پھپھوندی کے لیے بہترین تھا، جو سے کچھ مٹی کے بھرے ہوئے مردہ پودوں کی باقیات کھا کر پھل پھول رہی تھیں۔

محققین کے مطابق، اس عرصے کے دوران اگنے والی بہت سی پھپھوندی ممکنہ طور پر سڑتے ہوئے پتوں کا کچرا کھاتی تھی، جس کی وجہ سے وہ چیونٹیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں آتی گئیں۔

ان کیڑوں نے کھانے کے لیے وافر مقدار میں پھپھوندی کا استعمال کیا اور اس پر انحصار اس وقت تک جاری رکھا، جب تک کہ معدومیت کے واقعہ کے بعد زندگی دوبارہ معمول پر نہیں آ گئی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چیونٹیوں کو زراعت میں مزید ترقی کے لیے مزید چار کروڑ سال لگے۔

جب چیونٹیاں پھپھوندی کو نمدار جنگلوں سے نکال کر خشک علاقوں میں لے گئیں، تو الگ تھلگ پھپھوندی خشک حالات میں زندہ رہنے کے لیے چیونٹیوں پر مکمل طور پر منحصر ہو گئیں۔

چیونٹیاں بنیادی طور پر ان پھپھوندیوں کو اسی طرح پالتی تھیں جس طرح انسان فصلوں کو پالتے تھے۔

لیف کٹر چیونٹیاں ان میں سے ہیں، جو جدید ترین حکمت عملی پر عمل کرتی ہیں، جسے بہترین زراعت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ چیونٹیاں اپنی پھپھوندی کو خوراک فراہم کرنے کے لیے تازہ پودوں کے ٹکڑوں کی کٹائی کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں چیونٹیوں کے لیے خوراک پیدا ہوتی ہے۔

ڈاکٹر شولٹز نے چیونٹیوں اور پھپھوندی کے درمیان ارتقائی تعلق کا مطالعہ کرنے میں 35 سال گزارے ہیں، اور ان سالوں میں ان کی ٹیم نے پورے ٹراپیکل علاقوں سے چیونٹیوں اور پھپھوندی کے ہزاروں جینیاتی نمونے جمع کیے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے محققین نے 475 مختلف اقسام کی فنگی کے نمونوں کا استعمال کیا تاکہ ان کی جینیاتی معلومات جمع کی جا سکیں، جن میں سے 288 اقسام کی کھیتی مکھیوں نے کی ہے اور 276 مختلف اقسام کی چیونٹیوں کے نمونے جمع کیے، جن میں سے 208 اقسام پھوندی کی کھیتی کرتی ہیں۔

اس ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے سائنسدان اس بات کا تعین کرنے میں کامیاب رہے کہ چیونٹیوں نے کب پھپھوندی کا استعمال شروع کیا۔

مطالعے سے پتا چلا ہے کہ چیونٹیاں اور پھپھوندی چھ کروڑ 60 لاکھ سال سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں- اس وقت سے جب کریٹیشیئس دور کے آخر میں ایک سیارچہ زمین سے ٹکرایا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق