اسرائیل کا غزہ پر حملہ: مغربی میڈیا کیسے کور کر رہا ہے؟

غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کسی بھی تعریف کے لحاظ سے بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے، مگر مغربی میڈیا پوری کوشش کرتا ہے کہ زبان کے استعمال سے حقیقت چھپائی جائے۔

دو ہفتے قبل اسرائیل نے لبنان میں پیجرز، واکی ٹاکیز اور دوسری ڈیوائسز کو انسان کش ہتھیار بنا کر دنیا کو چونکا دیا۔ ان حملوں میں درجنوں افراد قتل اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جن میں بڑی تعداد عورتیں اور بچوں کی ہے۔

یہ حملہ کسی بھی تعریف کے لحاظ سے دہشت گردی، انسانیت کے خلاف جرم اور بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے، مگر اسے مغربی میڈیا نے کیسے کور کیا، وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔

مغربی میڈیا کے ایک حصے کو اس بات کی پروا نہیں ہے کہ درجنوں بےگناہ لوگ ایک غیر معمولی طریقے سے مارے گئے ہیں، بلکہ وہ اس واقعے کو حیرت انگیز طور پر چین اور روس سے منسلک خیالی خطرے سے جوڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ دونوں نے لکھا کہ ہماری سپلائی چینز کو کتنا خطرہ لاحق ہے اور ہمیں چین سے آنے والی مصنوعات کے بارے میں کتنی احتیاط برتنی چاہیے۔ 

یہ معاملہ نیا نہیں ہے۔ ایک عرصے سے مغربی میڈیا فلسطین اور اسرائیل کے معاملے کو ایک خاص رنگ کی عینک سے دیکھتا اور دوسروں کو دکھاتا ہے۔

مغربی میڈیا کی واضح اکثریت غزہ میں جاری ہولناکی کو ’اسرائیل حماس وار‘ قرار دے رہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید میدانِ جنگ میں دو فوجیں آمنے سامنے لڑ رہی ہیں۔ حالانکہ صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل اب تک دنیا کی جدید ترین جنگی مشین کے ذریعے۔ ایک گنجان ترین آبادی پر کم از کم 70 ہزار ٹن بارود گرا چکا ہے، جس کے مقابلے پر حماس کا جواب چند راکٹ حملوں کے سوا کچھ نہیں۔

اسے دو فوجوں کی آپس میں آمنے سامنے کی جنگ قرار دینے کا مقصد یہی ہے کہ اسرائیل کی جارحیت کی تلخی پر شکر کا لیپ کر کے پیش کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن یہی میڈیا جب یوکرین اور روس کی جنگ کو رپورٹ کرتا ہے، جہاں واقعی دو ملکوں کی فوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں تو وہ اسے یوکرین پر حملہ قرار دیتا ہے۔

صحافت کی کلاسوں میں سکھایا جاتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ایکٹیو وائس استعمال کی جائے کیوں کہ یہ زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ صحافت کی بائبل  سمجھی جانے والی ایسوسی ایٹڈ پریس کی سٹائل بک کے 55ویں ایڈیشن (مطبوعہ 2022) میں صحافیوں کو ہدایت دی گئی ہے:

Favor the active voice: "Firefighters are working the blaze," not "the blaze is being worked by firefighters."  

 

مگر غزہ پر ہونے والے حملوں کی رپورٹنگ کرتے وقت مغربی میڈیا ان اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر ایسی پیسیو زبان استعمال کرتا ہے جس سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ حملے کون کر رہا ہے۔ 

چھ ستمبر 2024 کو اسرائیلی فوج نے ایک ترک نژاد امریکی انسانی حقوق کی کارکن عائشہ نور کو مغربی کنارے میں سر میں گولی مار کر قتل کر دیا۔ اب دیکھیے اس سنگین جرم کو امریکی نیٹ ورک اے بی سی نے کیسے کور کیا:

American activist fatally shot in the head in the West Bank: Officials

یہ نہیں بتایا کہ خاتون کے سر میں گولی کس نے ماری۔ صرف سرخی کی بات نہیں، اس خبر میں اسرائیلی فوج کا ذکر کہیں جا کر 18ویں سطر میں آتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ اسی خبر کو یوں رپورٹ کیا:

'Gentle, brave, silly': Amerian killed in West Bank remembered by loved ones

برطانوی اخبار ٹائمز کی ایک سرخی دیکھیے۔ حماس قتل ’کر‘ رہا ہے جب کہ فلسطینی قتل ’ہو‘ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو کون قتل کر رہا ہے، اس کا پتہ نہیں۔

جب اسرائیل نے غزہ میں پانی کی فراہمی بند کر دی تو گارڈین اخبار نے یہ نہیں لکھا کہ اسرائیل عام شہریوں کے خلاف انسانیت کے خلاف سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ بلکہ اس کی سرخی کچھ یوں تھی:

یعنی اللہ جانے پانی کیسے بند ہوا، کس نے کیا، بس لوگ ڈی ہائیڈریٹ ہو رہے ہیں۔

ہم دنیا کی حقیقت تک رسائی زبان ہی کے وسیلے سے حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اسی زبان کی وساطت سے حقیقت چھپائی بھی جا سکتی اور توڑی مروڑی بھی جا سکتی ہے، بلکہ زبان کو بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اس وقت مغربی میڈیا کے ایک حصے میں یہی ہو رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا