جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملے کے بعد ایک سال کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے پانچ محاذوں پر جنگ کی منصوبہ بندی کی۔
اسرائیلی فوج غزہ اور لبنان میں لڑ رہی ہے۔ یمن میں حوثیوں کے خلاف فضائی اور خفیہ معلومات کی جنگ۔ ایران کی پراکسیز کے خلاف جنگ اور سب سے خطرناک ایران کے خلاف براہ راست جنگ۔
تاہم نتن یاہو چھٹے محاذ پر کامیابی حاصل کرنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں، جو اسرائیل کی مستقبل کی سکیورٹی اور ان کے سیاسی مستقبل کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔
پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب میں کون جیتے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے نزدیک یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
اسرائیل کی فوجی اور موساد کی صلاحیتوں کے باوجود، ملک کی بنیادی سکیورٹی واشنگٹن کے ہاتھ میں ہے، جو اسے ہتھیار اور مالی مدد فراہم کرتا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے حالیہ دنوں میں عوامی سطح پر بہت سے بیانات دیے ہیں کہ اسرائیل کو ایران کے 181 میزائلوں کے جواب میں کیا کرنا چاہیے اور اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ کیا نہیں کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے صحافیوں کے سامنے یہ بھی کھل کر کہا کہ آیا اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو امریکی عوامی رائے کو اس طرح متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سے ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب ہونے میں مدد ملے۔
جمعے کو ایک بریفنگ کے دوران بائیڈن سے سوال کیا گیا کہ کیا اسرائیلی وزیراعظم غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے میں آئندہ امریکی صدارتی انتخاب پر اثر انداز ہونے کے لیے رکاوٹ ڈال رہے ہیں؟
بائیڈن کا جواب تھا کہ ’میرے علم میں نہیں۔ لیکن میں اس پر انحصار نہیں کر رہا۔‘
امریکی شہری حالیہ سالوں میں ملک میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں غیر ملکی مداخلت کے الزامات کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مداخلت دشمن ممالک جیسے کہ روس، چین، یا حتٰی کہ ایران کی طرف سے کی جاتی ہے، جن پر حال ہی میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ای میلز ہیک کرنے کا الزام لگایا گیا۔
یہ واضح ہے کہ امریکہ کے بین الاقوامی مخالفین امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کیوں کریں گے۔ لیکن دوست ممالک بھی اپنے پسندیدہ امیدوار کو وائٹ ہاؤس میں لانے کے لیے ٹھوس، شاید زیادہ ٹھوس وجوہات رکھتے ہیں۔
1940 میں جب برطانیہ نازی خطرے کے خلاف اکیلا لڑ رہا تھا، تواس کے خفیہ ادارے ایم آئی سکس کے ایجنٹس، جن میں مستقبل کی اشتہارات کی دنیا کی بڑی شخصیت ڈیوڈ اوگلوی بھی شامل تھے، نے ایک ایسے رپبلکن امیدوار کی مہم میں تیزی لانے کے لیے جعلی رائے شماری تیار کی، جو الگ تھلگ رہنے کے مخالف تھے یعنی وینڈل ولکی۔
چرچل یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ اگر فرینکلن روزویلٹ ہار بھی جائیں تو کوئی ایسا شخص صدر بنے جو اتحادی ملکوں کو فوری ادائیگی کیے بغیر ہتھیاروں کی فراہمی کا حامی ہو۔
معتبر سکول سے تعلیم یافتہ دوسرے جاسوسوں نے سختی سے الگ تھلگ رہنے کے حامی رپبلکن امیدوار سینیٹر رابرٹ ٹافٹ کو مشکل میں ڈالنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے۔
1968 میں کمزور جواز کے تحت انتخاب میں مداخلت ہوئی جب امریکہ کے کمیونزم کے خلاف ایشیائی اتحادی، تائیوان کے چیانگ کائی شیک اور جنوبی ویت نام کے نگوین وان تھیو، نے یو ایس ایڈ کی طرف سے ملنے والا پیسہ کھل کر رچرڈ نکسن کی مہم میں لگایا۔ تھیو نے مزید آگے بڑھتے ہوئے مقتدر ڈیموکریٹس کی شمالی ویت نام کے ساتھ امن کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اقدامات کیے۔
بلاشبہ نکسن نے 1971 میں ماؤ کے چین کو تسلیم کر کے چیانگ کے ساتھ دھوکہ کیا، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انتخاب میں کامیاب مداخلت ہونے کی صورت میں بھی یہ ضروری نہیں بعد ازاں کوئی پالیسی خریدی جا سکے۔
’اکتوبر سرپرائز‘ کی اصطلاح کو رونلڈ ریگن کے انتخابی مینیجر، ولیم کیسی نے مشہور کیا، جنہوں نے 1980 میں خبردار کیا کہ جمی کارٹر صدارتی انتخاب سے قبل ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے والے ہیں۔ درحقیقت، کیسی، جو تجربہ کار امریکی خفیہ ایجنٹ اور امریکی خفیہ ادارے کے مستقبل کے ڈائریکٹر تھے، ایران کے ایجنٹوں کے ساتھ خفیہ بات چیت میں مشغول تھے تاکہ یرغمالیوں کے بحران کو کارٹر کی شکست کے بعد تک برقرار رکھا جا سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جمی کارٹر کی 100 ویں سالگرہ کی تقریبات نے امریکی عوام کو ایک ایسے ڈیموکریٹ صدر کی یاد دلائی جو انتخابی سال میں مشرق وسطیٰ کے حالات پر کنٹرول حاصل کرنے میں بظاہر بے بس نظر آتا ہے۔
اگر بائیڈن انتظامیہ ایران کے خلاف اسرائیل کے بڑے حملے کے لیے پینٹاگون کو اجازت سمیت انٹیلی جنس مدد فراہم کرنے سے انکار کرتی ہے، تو یہ بات نتن یاہو اور ٹرمپ کے حق میں جا سکتی ہے۔ بائیڈن پر ’ایران کی خوشنودی‘ کا الزام لگانے سے وہ امریکی ووٹرز جنہیں یرغمالیوں کے بحران کے دوران ایران کے ہاتھوں اپنی ملک کی ذلت یاد ہے، ٹرمپ کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
امریکہ کے لوگ ملکی پالیسیوں میں بنیامین نتن یاہو کی بار بار کی مداخلت کو خاصی حد تک برداشت کرنے والے رہے ہیں۔ کانگریس میں نتن یاہو کی تقریریں، ساتھ ہی اقوام متحدہ میں اور امریکی میڈیا میں انٹرویوز نے انہیں بہت سے امریکیوں کے لیے ایک مقامی سیاسی کردار بنا دیا ہے۔ بلاشبہ اپنی رواں انگریزی اور امریکہ سے گہرے ذاتی تعلقات کے باوجود، نتن یاہو کی ترجیحات اسرائیلی ہیں اور ان کی سیاسی قسمت ان کے ملک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلاشبہ اسرائیل کے حق میں دونوں جماعتوں کے درمیان ایک ہم آہنگی موجود ہے۔ جو بائیڈن اور کملا ہیرس نے اسرائیل کے لیے بنیادی حمایت کا اظہار کیا ہے اور اس کے ایران کے خلاف دفاع کا وعدہ کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں موجودہ ڈیموکریٹ ٹیم کو ڈونلڈ ٹرمپ سے الگ کرنے والا نکتہ یہ ہے کہ بائیڈن اور ہیرس، نتن یاہو کو ایران پر کسی بھی قسم کے حملے کے لیے کھلی چھوٹ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔
ایران کے آیت اللہ کو نشانہ بنانا شاید امریکہ میں ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ ہو لیکن غزہ اور لبنان میں کارروائیاں ان لوگوں کے ضمیر کے لیے پریشانی کا سبب ہیں جنہوں نے ووٹ کے معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
تاہم بن یامین نتن یاہو اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں ڈیموکریٹ حلقوں میں’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کا نظریہ رکھنے والے رپبلکنز کی حمایت کرنے کی وجہ سے کتنا ناپسند کیا جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر بیت المقدس کو اسرائیل کے غیر منقسم دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا۔ یہ عمل مسئلہ فلسطین کے کسی بھی دو ریاستی حل کے ایک اہم جزو کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے گولان کی پہاڑیوں کو بھی اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا جس سے شام کی امریکہ اور اسرائیل سے دشمنی درست ثابت ہوئی۔ اب ٹرمپ نتن یاہو کی ایران کے جوہری منصوبوں اور تیل کی برآمدات کو نشانہ بنانے کی ترجیح کی حمایت کر رہے ہیں۔
امریکہ کا آنے والا مہینہ طے کرے گا کہ آیا بنیامین نتن یاہو اپنی چھ محاذوں پر مشتمل جنگ میں سب سے فیصلہ کن میدان یعنی واشنگٹن میں کامیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
مارک آلمنڈ کرائسس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، آکسفورڈ کے ڈائریکٹر ہیں۔
نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent