خودکشی ایسی چیز نہیں جس کا سامنا آپ اکیلے کریں

اگر حکومت خودکشی کی روک تھام کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتی تو ہم سب کو بطور معاشرہ آگے بڑھ کر مل کر کام کرنا چاہیے۔

برطانیہ میں ہر سال چھ ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں (اینواتو)

خودکشی سنگین ذہنی بیماری کی انتہا ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں ہمارے جذبات اتنے شدید ہو جاتے ہیں کہ برداشت سے باہر ہو جاتے ہیں، اور موت زندگی سے بہتر لگنے لگتی ہے۔

میں اپنی زندگی میں خودکشی کے قریب تو پہنچا ہوں، مگر آخری قدم کبھی نہیں اٹھایا۔

ہر صبح، میں اپنی ذہنی صحت کو ’ایک سے دس‘ کے پیمانے پر جانچتا ہوں۔ جہاں نمبر ایک جنون اور دس خودکشی ہے۔ میں ان کے درمیان میں کہیں رہنا چاہتا ہوں۔ میں نے ایک بار جنون کا تجربہ کیا ہے (اور دوبارہ کبھی نہیں کرنا چاہتا)، اور نو کے قریب بھی پہنچ چکا ہوں۔ زیادہ تر وقت میں تین یا چار پر رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن جب چھ سے آگے چلا جاتا ہوں، تو پھر لگتا ہے کہ نیچے پھسلنے سے رکنا ناممکن ہے۔

ہم سب اسی ایک سے دس کے پیمانے پر زندہ ہیں، کیونکہ ہم سب کی ذہنی صحت ہے، اور جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت بھی کبھی اچھی ہوتی ہے تو کبھی بری۔

میں ٹِم واٹکنز سے اس وقت ملا جب مجھے بتایا گیا کہ وہ لندن کے ایک چیریٹی پروگرام میں مجھ سے پہلے تقریر کریں گے۔ وہ بڑی جسامت کے پراعتماد آدمی ہیں۔ ٹِم سب میں گھل مل گئے۔ پھر انہوں نے ایک دن خود کو موصول ہونے والی فون کال کی کہانی سنائی، جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کے بیٹے چارلی نے خودکشی کر لی ہے۔ اچانک ان کی آنکھوں کی چمک غم کی ایک واضح تصویر میں بدل گئی۔

مجھے شک ہے کہ میں کمرے میں موجود واحد والد نہیں تھا جو سوچ رہا تھا کہ

’اگر میرے ساتھ ایسا ہوا تو مجھے یقین نہیں ہے کہ میں کبھی اس سے باہر نکل پاؤں گا۔‘

ٹِم نے چارلی کی یاد میں قائم کی گئی چیریٹی کے لیے تقریر کی۔ میں اسی ادارے کے لیے فنڈز اکٹھا کر رہا تھا۔ ٹم ایک والد تھے جو برائی میں سے اچھائی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ ناقابل بیان درد اور نقصان کو سمجھنے کے لیے کوشاں تھے۔

مائیک میک کارتھی ایک اور والد ہیں جن کا بیٹا خودکشی کی نذر ہو گیا۔ ان کے بیٹے راس نے 2021 میں 31 سال کی عمر میں اپنی زندگی ختم کر لی، اور اپنے پیچھے ایک منگیتر اور ایک تین سالہ بیٹا چھوڑا۔ وہ کچھ عرصے سے ڈپریشن سے لڑ رہے تھے، اور کووِڈ لاک ڈاؤن نے حالات مزید بگاڑ دیے۔

اپنے خاندان کے لیے چھوڑے گئے ایک نوٹ میں انہوں نے کہا، ’برائے مہربانی ذہنی صحت کے لیے لڑیں۔ یہاں کسی قسم کی مدد نہیں ملتی۔‘ اس وقت، وہ ٹاکنگ تھراپی کے لیے چھ ماہ کی ویٹنگ لسٹ پر تھے۔

اپنے بیٹے کی موت کے بعد سے، سکائی اور بی بی سی کے سابق صحافی مائیک نے راس کے مطالبے پر توجہ دی، اور خود کو خودکشی کی روک تھام کے شعبے کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے بھی ایک چیریٹی، ’بیٹن آف ہوپ‘ شروع کی۔

جمعرات کو ذہنی صحت کی آگاہی کے ہفتے کے ایک حصے کے طور پر، یہ تنظیم برطانوی شہر شیفیلڈ میں ’خودکشی کی روک تھام کو ہر ایک کا مسئلہ بنانا‘ (Making Suicide Prevention Everyone’s Business) کے عنوان سے ایک بڑی کانفرنس کی میزبانی کرے گی۔

یہ کانفرنس بےحد برمحل ہے کیوں کہ ذہنی صحت کے لیے حکومت کے نقطہ نظر میں تبدیلی آئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے دور اقتدار کے دوران، ڈیوڈ کیمرون اور ٹیریزا مے نے ذہنی صحت کے بارے میں بہت سی صحیح باتیں کہیں، موخر الذکر نے خودکشی کی روک تھام کے لیے پہلے وزیر کا تقرر بھی کیا۔ تب سے آج تک اگرچہ رویوں اور آگاہی کے حوالے سے ہم نے مسلسل ترقی کی ہے، لیکن خدمات کے معاملے میں ہم پیچھے جا رہے ہیں۔

برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک کی حال ہی میں ’بیماری کی چھٹی کا رویہ‘ پر تقریر، اور لوگوں کی کام کے لیے تندرستی کا اندازہ لگانے میں جی پی کے کردار کو کم کرنے والی ایک نئی پالیسی نے مجھے لگا کہ یہ رویوں پر بھی گھڑی کی سوئیاں پیچھے گھمانے کی کوشش ہے۔

ایسا لگتا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ڈپریشن اور اضطراب دیگر بیماریوں کی طرح حقیقی نہیں ہیں۔ یہ پیچھے کی طرف ایک قدم ہے۔ حقیقی مسائل سے نمٹنے کے لیے پالیسیاں بنانے کے بجائے ان کی ترجیح یہ ہے کہ وہ ایسے دکھائیں جیسے یہ مسائل پائے ہی نہیں جاتے۔

ہر سال خودکشی سے سوگوار ہونے والے چھ ہزار خاندانوں کے پاس بتانے کے لیے اس سے بہت مختلف کہانی ہے۔

خودکشی 50 سال سے کم عمر کے مردوں اور 35 سال سے کم عمر کی خواتین کی سب سے بڑا قاتل ہے، اور تمام کھلے پن اور مہم چلانے کے باوجود، ان اعداد و شمار میں 15 سالوں سے زیادہ عرصے سے کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔

تصور کریں کہ اگر دمہ سب سے بڑا قاتل ہوتا، یا ذیابیطس، یا واقعی کوئی جسمانی بیماری۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ سیاسی اور طبی اداروں کی طرف سے زیادہ فوری اقدامات کیے جاتے؟

دیکھیے کہ جب ضرورت بہت زیادہ تھی، تو ہم نے کووِڈ کے لیے ویکسین تلاش کرنے کے لیے کس طرح کام کیا۔ ذہنی بیماری کے لیے ادویات کئی عشروں بعد ہی بدلتی ہیں۔

ہم جسمانی اور ذہنی صحت کے درمیان ’مساوات‘ پر بات کرتے ہیں، لیکن ہم اس سے لاکھوں میل کی دوری پر ہیں۔ پھر بھی تعلیمی اور طبی تحقیق کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ صحیح رویوں اور مدد کے نظام کے ساتھ خودکشی تقریباً ہمیشہ روکی جا سکتی ہے۔

جمعرات کو ہونے والی کانفرنس ورک پلیس عہد کے آغاز کے ساتھ، آجروں اور کام کی جگہوں کے کردار کو عام طور پر اجاگر کرے گی۔ خودکشی کی حمایت کے چھ اصولوں پر مبنی، یہ رہنماؤں اور تنظیموں کے لیے ایک عملی رہنما اصول فراہم کرتی ہے کہ وہ خودکشی سے ہونے والی اموات کو روکنے میں مدد کے لیے کیا کر سکتے ہیں اور کیا کرنا چاہیے۔

اگر حکومت قیادت فراہم نہیں کرے گی، یا عملی مدد فراہم نہیں کرے گی، تو باقی ہم پر منحصر ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور اس خلا کو پُر کریں۔

شاید ڈیوڈ کیمرون کا یہی مطلب تھا جب انہوں نے ’بگ سوسائٹی‘ کی بات کی تھی۔ جب ذہنی صحت اور خودکشی کی روک تھام کی بات آتی ہے، تو ہم واقعی سب ایک ساتھ ہیں اور ہمیں ایسا ہی ہونا چاہیے۔

ایلسٹئر کیمپیل جمعرات کو شیفیلڈ میں خودکشی کی روک تھام کے لیے ہونے والی 'دی بیٹن آف ہوپ' کانفرنس میں کلیدی مقرر ہوں گے۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر