پی ٹی ایم کے ساتھیوں کے شناختی کارڈ بلاک کریں گے: وزیر داخلہ

ضلع خیبر میں سکیورٹی فورسز اور پی ٹی ایم کے کارکنوں میں تصادم کے نتیجے میں تین افراد مارے گئے۔

ضلع خیبر میں جرگے کی مقام پر بدھ کو پولیس سے جھڑپوں میں کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے تین کارکن مارے گئے۔

پی ٹی ایم نے ایک بیان میں اپنے تین کارکنان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے سیدھی فائرنگ کی۔ 

بیان میں بتایا گیا کہ مرنے والوں میں خیل وزیر، طائف وزیر اور رمضان اتمان شامل ہیں۔ مقامی پولیس حکام نے تاحال اس واقعے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کے ہسپتال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیر زمان نے بتایا کہ مجموعی پر 13 زخمی لائے گئے تھے جس میں سے تین کی موت ہو گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ’زخمیوں میں بعض کی سرجریز ہو چکی ہیں جبکہ بعض کی ابھی ہونی ہیں۔‘

پی ٹی ایم کا ساتھ دینے والوں کے شناختی کارڈ بلاک کریں گے: وزیر داخلہ

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ پی ٹی ایم کا ساتھ دینے والے افراد کے خلاف کارروائی کریں گے اور شناختی کارڈ بلاک کریں گے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد میں میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں کہا کہ پی ٹی ایم پر پابندی کے بعد خیبر پختونخوا (کے پی) حکومت نے 54 افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کیا کسی کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ کے پی میں امن و امان کی صورت حال سخت خراب ہے اور ’نرم ریاست‘ کا تصور ختم کیا جائے گا۔

 ’جو ریاست سے علیحدگی کی بات کرے گا ہمارا دشمن ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت حقوق کی بات کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہے لیکن ہتھیار اٹھانے والوں سے نہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی صور متوازی عدالتی نظام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

جرگے کے مقام پر پی ٹی ایم مظاہرین کی بڑی تعداد جمع ہے۔ مقامی پولیس افسران پر مشتمل ایک وفد نے جرگے کے میزبان اور کوکی خیل قبیلے کے مشر ملک نصیر خان سے جرگہ گراؤنڈ میں ملاقات کی۔

ملاقات میں پولیس افسران نے بتایا کہ حکام بالا کے احکامات ہیں کہ اس میدان میں کسی قسم کا جلسہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کی اجازت نہیں۔ 

اس پر ملک نصیر نے بتایا کہ جرگہ پشتون روایت ہے اور ہمیں جرگے کے لیے کسی قسم کی اجازت کی ضرورت نہیں لہٰذا خون خرابہ کرنے کی بجائے پولیس جلد از جلد جرگہ گراؤنڈ کو خالی کرے۔ 

پولیس افسران نے بتایا، ‘ہم سرکاری ملازمین ہیں اور حکومت وقت کے حکم کی پابندی ہماری مجبوری ہے لہٰذا کارکنان گراؤنڈ خالی کریں اور کسی ہجرے میں جا کر جرگہ کریں۔‘

پولیس وفد نے کہا کہ جرگے کے کچھ اراکین وزیراعلیٰ، گورنر اور دیگر حکام بالا سے ملاقات کریں اور ان سے اس معاملے پر بات کریں کیونکہ ہمیں احکامات ہیں اور ہم یہاں کسی صورت جرگہ ہونے نہیں دیں گے۔

’وزیر اعلیٰ کی کوشش ہے معاملے کا پرامن حل نکلے‘

مشیر اطلاعات برائے وزیر اعلیٰ کے پی بیرسٹر محمد علی سیف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وفاقی حکومت نے پی ٹی ایم کو کالعدم کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے، جس کے بعد قانوناً تنظیم کو کسی قسم کے سیاسی اجتماع، جلسے اور جلوس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت کے بعد کالعدم تنظیم کو ان کے اعلان کردہ 11 سے 13 اکتوبر کے اجتماع کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

بیرسٹر سیف کے مطابق کالعدم تنظیم نے گذشتہ دنوں ضلع خیبر میں اجتماع کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 کے تحت ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔

’ان تمام قانونی اقدامات کے باوجود کالعدم تنظیم نے اس علاقے میں اجتماع کرنے کی کوشش کی تو ان کا پولیس سے تصادم ہوا۔‘

اس واقعے کی اطلاع وزیر اعلیٰ کو ملی تو انہوں نے فوری نوٹس لیتے ہوئے علاقے سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی کو بلایا اور کہا کہ وہ اپنے علاقے میں جا کر مسئلے کو حل کریں۔ اس حوالے سے انہوں نے کوکی خیل کے عمائدین سے بھی معاملہ حل کرنے کے لیے رابطہ کیا۔

بیرسٹر سیف کے مطابق انتظامیہ کی کوشش کی یہ حالات کو قابو میں رکھا جائے۔’وزیر اعلیٰ کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ معاملات کو پر امن طریقے سے حل کریں۔‘

اس سے قبل پشاور پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بتایا تھا کہ گذشتہ رات پی ٹی ایم کے جرگے کے مقام پر کریک ڈاؤن کے بعد گراؤنڈ کا کنٹرول ایف سی کے پاس ہے۔

سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’گذشتہ رات کریک ڈاؤن کیا گیا لیکن کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ شرکا نے پرامن طریقے سے جگہ خالی کر دی تھی۔‘

پولیس افسر کے مطابق آج صبح وہاں خندقیں کھودی گئیں اور اب میدان خالی ہے، جہاں پر پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

پی ٹی ایم نے 11 اکتوبر کو صوبے بھر میں جاری بدامنی کے خلاف ’پشتون قومی جرگہ/عدالت‘ کے نام سے ایک جرگہ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، قوم پرست اور دیگر مختلف رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے گذشتہ رات کریک ڈاؤن کے بارے میں فیس بک پر لکھا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے جرگے کے مقام پر خندقیں کھود دی ہیں۔

انہوں نے لکھا: ’ہماری حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ اپنی روایات کے مطابق جرگے کے لیے اجازت بھی نہیں مل رہی لیکن اب جرگہ ہوگا اور اب تو جرگہ اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔‘

پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی کا فیصلہ چھ اکتوبر کو وفاقی حکومت کی جانب سے تنظیم پر پابندی کے بعد کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت نے پی ٹی ایم کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے جبکہ تنظیم کے سربراہ منظور پشتین سمیت متعدد رہنماؤں کو شیڈول فور لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

شیڈول فور لسٹ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ہے، جس میں ان افراد کو شامل کیا جاتا ہے، جن سے ریاست کو شدت پسندی پھیلانے کا شبہ ہو۔

پی ٹی ایم کے حوالے سے گذشتہ روز چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کی جانب سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا گیا، جس میں سرکاری ملازمین اور طلبہ کو پی ٹی ایم کی کسی سرگرمی میں حصہ لینے سے منع کیا گیا ہے۔

مراسلے کے مطابق: ’پی ٹی ایم چونکہ اب ایک کاالعدم تنظیم ہے، لہٰذا اس تنظیم کی سرگرمیوں میں حصہ لینا یا اس کو فنڈنگ کرنا قانونی جرم ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے واضح طور پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے بعض اراکین نے کھلے عام جرگے کی حمایت اور اس میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے پشاور سے رکن قومی اسمبلی ارباب شیر علی نے گذشتہ روز جرگے کے گراؤنڈ کا دورہ بھی کیا ہے اور ایکس پر لکھا کہ ’جرگے میں شرکت سیاسی لائن سے بالاتر ہے۔‘

اسی طرح پی ٹی آئی پشاور ریجن کے صدر محمد عاصم نے ارباب شیر علی کی ٹویٹ پر اس بات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ذاتی حیثیت سے میں اس موقف کی تائید کرتا ہوں۔‘

وفاقی حکومت پی ٹی ایم پر پابندی کے وجوہات فراہم کرے: پشاور ہائی کورٹ 

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے بدھ کو کہا ہے کہ وفاقی حکومت پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کی وجوہات فراہم کرے۔

جسٹس ایس ایم ایس عتیق شاہ اور جسٹس صاحب زادہ اسد اللہ نے پشتون تحفظ مومنٹ کو کالعدم تنظیم قرار دینے کے خلاف دائر درخواست پر بدھ کو سماعت کی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اور پشتون گرینڈ جرگے کو ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ ’جن بنیادوں پر پشتون تحفظ موومنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے وہ ہمیں فراہم نہیں کی گئیں۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ ’کیا پابندی کا اعلامیہ وفاقی حکومت نے جاری کیا؟‘

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’تنظیم پر پابندی کا فیصلہ وفاقی کابینہ نےکیا ہے۔‘

جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے کہا کہ ’کن بنیادوں پر پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے وہ درخواست گزار کو فراہم کریں۔‘

اس کے ساتھ ہی عدالت نے سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان