کراچی میں مظاہرے، لاٹھی چارج، شیلنگ، متعدد زخمی، پولیس وین نذر آتش

صوبائی وزیر داخلہ ضیا لنجار کا کہنا تھا کہ جن افراد نے قانون ہاتھ میں لیا ان کے خلاف کارروائی بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب کی جائے گی۔

کراچی میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے رواداری مارچ اور اسی مقام پر تحریک لبیک پاکستان کی ریلی پہنچنے پر پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس پھینکی اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 35 سے زائدافراد کو حراست میں بھی لیا جبکہ مشتعل مظاہرین نے میٹروپول ہوٹل کے پاس پولیس کی وین کو نذر آتش کر دیا۔ 

سول سوسائٹی اور مذہبی تنظیم کی جانب سے ریلی اور احتجاج کے اعلان کے بعد پولیس نے سپر ہائی وے سمیت شہر کی کئی شاہراہوں پر ناکہ بندی کی لیکن اس کے باوجود سول سوسائٹی کی ریلی رکاوٹیں ہٹا کر پریس کلب کے باہر پہنچ گئی، جہاں مظاہرین اور پولیس آمنے سامنے  ہوگئے، پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ کی گئی۔

پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 35 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔

کراچی کے علاقے صدر کے قریب ٹی ایل پی کے کارکنان کو پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے روکنے کی کوشش کی، اس دوران پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ بھی کی گئی۔

بعد میں مشتعل افراد نے ایک پولیس موبائل بھی نذرآتش کی جبکہ صدر میٹرو پول کے قریب فائرنگ سے ایک شخص جان سے گیا جن کی شناخت ٹی ایل پی کارکن عامر عزیز کے نام سے ہوئی ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ ضیا لنجار نے پریس کلب اور تین تلوار، میٹروپول پر مظاہروں سے متعلق بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’سول سوسائٹی اور مذہبی جماعت کی جانب سے ایک ہی دن مظاہرے کی کال میں تصادم کا خدشہ تھا۔ جن افراد نے قانون ہاتھ میں لیا ان کے خلاف کارروائی بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب کی جائے گی۔

’پریس کلب پر مظاہرے کے دوران صحافیوں اور دیگر کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک اور تشدد پر تحقیقات کا حکم دیا ہے جن پولیس اہلکاروں نے شناخت بتانے کے باوجود صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ان کے خلاف سخت ایکشن ہوگا۔‘

اس سے قبل ڈی آئی جی ساؤتھ زون اسد رضا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’کراچی شہر میں پانچ دن کے لیے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد ہے اس لیے ہم نے تقریباً 20 سے 25 افراد کو قانون کی خلاف ورزی اور حساس مقام پر احتجاج کرنے پر حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔‘

شہری انتظامیہ نے ہفتے کو پورے کراچی  شہر میں 13 سے 17 اکتوبر کے دوران دفعہ 144 کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق خصوصاً ریڈ زون و تین تلوار کے علاقوں میں کسی بھی قسم کی ریلی نکالنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا عندیہ دیا گیا تھا۔

اتوار کی صبح سندھ رواداری کمیٹی، ہیومن رائٹس اور سول سوسائٹی کی جانب سے عمرکوٹ کے ڈاکٹر شاہنواز کے ماورائے عدالت قتل اور ان کی لاش کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کیا جانا تھا، جس میں تین تلوار سے کراچی پریس کلب تک مارچ شامل تھی۔

مذکورہ مارچ کی اطلاع پر تحریک لبیک پاکستان نے بھی تین تلوار سے ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے اور اپنے کارکنوں کو اس مقام پر پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انتظامیہ نے شارع فیصل پر ایف ٹی سی کے مقام پر رکاوٹیں کھڑی کیں اور کشیدہ صورت حال میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

ڈی آئی جی ساؤتھ زون اسد رضا کے مطابق ’ہم نے کراچی شہر میں پانچ دن کے لیے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جہاں احتجاج کیا جارہا تھا وہ ریڈ زون کے دائرے میں آتا ہے۔ اس لیے ہم نے انہیں حفاظتی تحویل میں لیا۔

’ہم ایک بار پھر تمام شرکا کو مشورہ دیتے ہیں یا درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ پریس کلب آنا چاہتے ہیں تو ان کا خیر مقدم ہے۔ لیکن اگر وہ ریلی نکالنا چاہتے ہیں یا امن و امان کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ پولیس کو قابل قبول نہیں ہو گا۔‘

سماجی تنظیم کی رکن زہرہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ڈاکٹر شاہنواز کے ماوروائے عدالت قتل جیسے واقعات میں کمی لانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانا چاہیے۔‘

انہوں نے ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ کے لیے تحفظ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان