کئی سال قبل میں نے ملک کے ایک بڑے عالم کی ایک تحریر پڑھی تھی جس میں وہ خواتین کے بہت زیادہ پڑھنے اور نوکری کرنے کی شدید الفاظ میں ممانعت کر رہے تھے۔
انہوں نے اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ خواتین شدید مجبوری میں گھر سے باہر نکل کر کام کر سکتی ہیں، وہ بھی اپنے محرم کی اجازت کے ساتھ اور شریعت کے اصولوں کے عین مطابق، مجبوری کا تعین ہونا لازمی ہے۔
یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:
کسی بھی چیز کو مجبوری کا نام دے کر خواتین ملازمت نہیں کر سکتیں۔ مردوں کی مجبوری ان کا مرد ہونا اور اپنے خاندان کی کفالت کرنا ہے۔
اس مجبوری کے تحت ان کا روزانہ گھر سے باہر نکلنا لازم ہے۔ اگر خواتین بھی ان کی طرح گھر سے باہر کام کرنے کے لیے جائیں گی تو مرد اپنے کام پر توجہ مرکوز نہیں کر سکیں گے۔
وہ اپنے مشن سے ہٹ جائیں گے اور فتنے کا شکار ہو جائیں گے۔ اس لیے مردوں کے ہوتے ہوئے خواتین کو کام کرنے کی ضرورت نہیں۔
کسی دن ان کا انتقال ہو جائے یا وہ گھر واپس ہی نہ آئیں یا گھر والوں کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیں یا خود ان پر بوجھ بن جائے، اس بارے وہ کچھ زیادہ نہیں کہتے۔
بس ایک ہی حل بتاتے ہیں، اگلی شادی۔ انہیں چھوڑیں اور کسی اور سے شادی کر لیں۔ جیسے ایک شادی کے ختم ہونے کے بعد دوسری شادی کرنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہو اور ہر آدمی ذمہ دار اور سمجھ دار ہو۔
آج پھر میری نظروں کے سامنے ایک ویڈیو ہے جس میں وہی سب دہرایا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک بڑے عالم ہیں۔ ان کے سننے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔
یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خواتین کا کام کرنا ان کے محرم کی اجازت سے مشروط ہے اور وہ صرف وہ کام کر سکتی ہیں جس کی شریعت میں اجازت ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر خاتون شریعت کے مطابق کوئی کام کرنا چاہے لیکن اس کے محرم محض اپنی انا کی وجہ سے اسے اجازت نہ دے رہے ہوں، اس صورت میں کیا حکم ہے؟
کیا عورت کا اپنی زندگی پر کوئی حق نہیں؟ کیا اسے تا عمر ایک آدمی کے بعد دوسرے آدمی کی اطاعت کرنی ہے؟
ایسی باتوں کی بھی اطاعت جو وہ آدمی صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے کر رہا ہو؟ اور عورت یہ سب کس کے عوض کرے؟
اسے تو اس آدمی کی جان کی بھی ضمانت حاصل نہیں۔ وہ صبح ہے، دوپہر نہ ہو۔ کیا ضمانت ہے۔ اس صورت میں عورت کا ذمہ دار کون ہوگا؟
ایک دوسرا آدمی؟ کیا عورت اپنی پوری زندگی یہی کرتی رہے گی؟ ایک آدمی کے بعد دوسرا آدمی؟
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا اکیسویں صدی کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ خواتین کا کیمرے کے سامنے آنا غلط ہے۔
انہیں دیکھ کر مردوں کے دل میں ہلچل ہو سکتی ہے اور اگر کسی مرد کے دل میں ہلچل نہیں ہوتی تو اسے علاج کی سخت ضرورت ہے۔
یہ انہوں نے ایک خاتون اینکر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا۔ وہ اس وقت کچھ بول نہیں سکیں۔
اتنے بڑے رتبے کا آدمی سامنے موجود ہو تو اسے ٹوکنا غلط سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے عالم نے یہ بھی کہا کہ یوٹیوب کی کمائی حرام ہے کیوں کہ وہاں دکھائے جانے والے اکثر اشتہارات میں خواتین اور موسیقی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اشتہار حرام ہو جاتے ہیں۔
ان کا اپنا ایک بڑا یوٹیوب چینل ہے۔ غالباً وہ اس سے اشتہارات کی مد میں پیسے نہیں کماتے۔ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔
وہ ایک بڑے عالم ہیں۔ ان کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے۔ ان کے پاس پیسے کی ریل پیل ہے۔ وہ دنیا بھر میں مدعو کیے جاتے ہیں، وہ بھی مکمل انتظامات کے ساتھ۔
ان کا اپنا ملک ان پر زمین تنگ کرتا ہے تو دنیا کے کئی ممالک انہیں پناہ دینے کے لیے سامنے آ جاتے ہیں۔
عام آدمی کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ ایک سیکنڈ میں یہاں ایک جیتا جاگتا انسان جلی ہوئی نعش بن جاتا ہے۔
اس پر ہوئے ظلم کی تحقیقات بھی نہیں ہوتیں۔ مقدمہ ہو تو خودبخود بند ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا احوال یہ کیا جانیں۔
یہ تو بھرے پیٹ کی باتیں کر رہے تھے۔ انہیں پاکستان اور انڈیا میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کے بھوکے پیٹوں کی تکلیف کا اندازہ ہی نہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے علما اور عام لوگوں کے درمیان ایک گہری خلیج موجود ہے جو نہ صرف نظریاتی ہے بلکہ تجرباتی بھی ہے۔
یہ علما عام لوگوں سے مختلف زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں لوگوں کی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں۔
انہیں چاہیے کہ وہ لوگوں کو حکم دینے سے پہلے، انہیں سنیں۔ ان کے ساتھ وقت گزاریں اور اور ان کے حالات و واقعات کو سمجھتے ہوئے ان کے مسائل کا حل پیش کریں۔ ورنہ ان کے بیانات بس پسِ منظر میں موجود حلال موسیقی کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔