ایک نئی تحقیق کے مطابق پرنٹنگ پریس کی آمد نے 15ویں صدی کے آخری سالوں میں یورپ بھر میں غلط معلومات کے پھیلاؤ اور خواتین کو ’چڑیلیں‘ قرار دے کر بدترین سزائیں دینے کے تصور کو ہوا دی۔
سانتا فے انسٹی ٹیوٹ کے محققین نے پایا کہ ’وچ ہنٹنگ‘ (خواتین کو چڑیل قرار دے کر زندہ جلانے اور دیگر غیر انسانی سزائیں دینے) سے متعلق کتابوں کی اشاعت اور پھیلاؤ سے خاص طور پر 1487 میں جرمن مصنفین کی کتاب ’میلیئس مالیفیکارم‘ نے یورپ بھر میں تقریباً 90 ہزار خواتین کے خلاف انسانیت سوز ظلم میں کلیدی کردار ادا کیا۔
’وچ ہنٹنگ‘ کی روایت وسطی یورپ میں 15ویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی اور 300 سال سے زیادہ جاری رہی۔ اندازوں کے مطابق اس عرصے کے دوران تقریباً 45 ہزار خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
’تھیوری اینڈ سوسائٹی‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق شہروں میں لوگ اپنے پڑوسیوں پر نظر رکھتے جس سے وہ سماجی طور پر متاثر ہوئے۔
اس مطالعہ کے شریک مصنف کیریس ڈوٹن سنیٹکر نے کہا: ’کتابوں کے نئے تصورات کے ساتھ ساتھ قریبی ’وچ ٹرائلز‘ (خواتین کو چڑیل قرار دینے کے لیے چلنے والے مقدموں) کے اثر نے اس انسانیت سوز ظلم کے پھیلاؤ کے لیے سازگار حالات پیدا کیے۔‘
اس مطالعے میں سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ کس طرح جادو ٹونے کے بارے میں نئے خیالات سماجی اور تجارتی نیٹ ورکس کے ذریعے پھیلے جنہوں نے یورپ میں انسانی طرز عمل کو متاثر کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے 1400 اور 1679 قبل مسیح کے درمیان وسطی یورپ کے 553 شہروں میں ’وچ ہنٹنگ مینوئل‘ کی اشاعت کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔
پرنٹنگ پریس کی آمد کے ساتھ ہی جادو ٹونے کے بارے میں نئے تصورات کا تیزی سے پھیلاؤ ہوا جو اس سے پہلے مذہبی علما اور مقامی محتسبوں کے چھوٹے حلقوں تک محدود تھا۔
محققین نے کہا کہ خاص طور پر ’میلیئس مالیفیکارم‘ کتاب کو ’چڑیلوں‘ کی شناخت، پوچھ گچھ اور مقدمہ چلانے کے لیے ایک نظریاتی اور عملی رہنما اصول کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ’میلیئس مالیفیکارم‘ کے ہر نئے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد وچ ٹرائلز میں اضافہ ہوا۔
بعد میں حکام نے اپنی برادریوں میں مشتبہ جادو ٹونے کرنے والوں کا انتظام کرنے کے لیے اس کتاب کا استعمال شروع کیا۔
جب ایک شہر نے اس کتاب میں بیان کردہ طریقوں کو اپنایا تو قریبی شہر اکثر اس عمل کی پیروی کرتے ہیں جسے محققین ’ ideational diffusion‘ کہتے ہیں۔
ابتدائی طور پر لوگوں کو جادو ٹونے کے بارے میں نئے تصورات کو قبول کرنے اور انہیں سماجی رویے میں تبدیل کرنے میں کئی سال لگے لیکن ایک بار جب ان خیالات نے زور پکڑ لیا تو انہوں نے پورے براعظم میں ایک اس کی سست لیکن طاقتور لہر جیسا اثر پیدا کیا۔
ڈاکٹر ڈوٹن سنیٹکر نے کہا کہ وچ ٹرائلز کو اپنانے کا عمل آج کے جدید دور میں حکومتیں نئی پالیسیوں کو اپنانے سے مختلف نہیں تھا۔
ان کے بقول: ’یہ اکثر تصورات میں تبدیلی کے ساتھ شروع ہوتا ہے جو سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے تقویت پاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خیالات جڑ پکڑتے ہیں اور پورے معاشروں کے رویے کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔‘
© The Independent