26 ویں آئینی ترمیم: سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش

سینیٹ سے منظوری کے بعد 26 واں آئینی ترمینی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ ایوان زیریں کا اجلاس آج دوپہر دوبارہ ہو گا۔

26 واں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے، جس کے بعد ایوان کا اجلاس آج یعنی پیر کی دوپہر 12:05 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیمی بل  قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

بل پیش کرنے کے بعد وفاقی وزیر اس کے اہم نکات ایوان کے سامنے پیش کیے۔   

اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار آیاز خان کی صدارت میں شروع ہوا۔

تقریباً ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں 26 ویں ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے قبل صدر مسلم لیگ ن نواز شریف،  وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف پارلیمنٹ ہاوس پہنچے تھے۔

بل میں جمعیت علمائے اسلام  کی منظور ہونے والی چار ترامیم بھی شامل ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ایوان میں آمد پر اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا گیا اور کئی ایم این ایز اپنی نشستوں سے اٹھ کر ان سے ملنے آئے۔

اس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی ایوان میں آمد پر بلاول بھٹو زرداری نے انہیں آگے بڑھ کر ویلکم کیا، جب کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی نشست سے اٹھ کر ان سے مصافحہ کیا اور گلے ملے۔

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے اتوار کو 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی، جس کے بعد اب قومی اسمبلی سے اس بل کی منظوری لی جائے گی۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔

مختلف اراکین کے اظہار خیال کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیمی بل پر ووٹنگ کی تحریک پیش کی، جس کی کثرت رائے سے منظوری کے بعد اس پر ووٹنگ کا عمل شروع ہوا اور بل کی شق وار منظوری لی گئی۔

26 ویں آئینی ترمینی بل میں 22 ترامیم شامل تھیں، جنہیں دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا۔

سینیٹ کے ایوان میں آئینی ترمیم کو کل 65 ووٹ ملے۔ ان میں سے 24 ووٹ پاکستان پیپلز پارٹی، 19 ووٹ پاکستان مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام ف کے پانچ ووٹ شامل تھے۔

اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے تین، تین، بلوچستان نیشنل پارٹی کے دو اور مسلم لیگ ق کا ایک ووٹ بھی شامل ہے۔ آزاد اراکین انوارالحق کاکڑ، محسن نقوی، فیصل واوڈا اور عبدالقادر نے بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیے۔

اس سے قبل اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’اس آئینی ترمیم کے حوالے سے یہ بیانیہ بنایا گیا کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تقرر کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے، میری ان (چیف جسٹس) سے تین ملاقاتیں ہوئیں، جس کے دوران انہوں نے کہا کہ وہ اپنی مدت میں کسی قسم کی توسیع میں دلچسی نہیں رکھتے اور آپ جو بھی کرنا چاہتے ہیں، وہ میری مدت کے بعد لاگو ہوگا۔‘

وزیر قانون نے بتایا کہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی بینچز کا قیام کیا جا رہا ہے اور چیف جسٹس کی تقرری تین سال کے لیے ہوگی اور تین سینیئر ترین ججوں میں سے انتخاب کیا جائے گا، جس کا تقرر 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، جو دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کرے گی۔

عمران خان سے ملاقات کے لیے مولانا صاحب نے سہولت فراہم کی: سینیٹر علی ظفر

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے اتوار کو سینیٹ سے خطاب کے دوران کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سہولت فراہم کی۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق کوئی فیصلہ عمران خان سے مشورے کے بغیر نہیں کر سکتے تھے اور جیل میں ان سے ملاقات پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں عمرن خان سے ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو سہولت فراہم کی اور تب ہی یہ ملاقات ممکن ہو سکی۔    

26 ویں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں نمبر گیم 

قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کی آٹھ جماعتوں پر مشتمل پارلیمانی پارٹی 212 اراکین (ایم این ایز) پر مشتمل ہے، جب کہ جمعیت علمائے اسلام کے آٹھ اراکین کے ساتھ یہ تعداد 220 ہو جاتی ہے۔

آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے ایوان کی دو تہائی اکثریت ضروری ہے، جو 224 ووٹوں سے ہی ممکن ہو سکتی ہے، تاہم بعض آزاد اراکین قومی اسمبلی کا 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کا امکان موجود ہے۔  

قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں کے فیصلے سے قبل حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، لیکن سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد حکومتی بینچز کو کچھ نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں کل 96 نشستیں ہیں، جن میں خیبر پختونخوا کی 11 نشستیں حالی ہیں۔

باقی ماندہ 85 نشستوں میں سے حکومتی اتحاد کے پاس 66 نشستیں ہیں، جبکہ پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 19 ہے۔

آئین میں ترمیمی بل کی منظوری کے لیے دو تہائی یعنی 64 سینیٹرز کی حمایت درکار ہے۔

26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی وفاقی کابینہ سے منظوری

 

اس سے قبل سیاسی جماعتوں سے طویل مشاورت کے بعد وفاقی کابینہ نے اتوار کو 26 ویں آئینی ترمیم کے حتمی مسودے کی متفقہ طور پر منظوری دی تھی۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں تصدیق کی کہ ’کابینہ نے متفقہ طور پر 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ہے۔‘

خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ’اب پہلے سینیٹ کے اجلاس میں اور پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی ترمیمی بل کو منظور کر لیا جائے گا۔‘

بعدازاں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’26 ویں آئینی ترمیم آج ایوان میں پیش ہونے جا رہی ہے، یہ 26 نکاتی متفقہ مسودہ ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مسودے میں آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچز بنانے کی تجویز ہے۔ صوبوں کی سطح پر بھی آئینی بینچ بنانے کی تجویز پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سامنے آئی۔

’آئینی بینچ کے لیے بینچ کی تشکیل اور ججوں کی نامزدگی کے لیے کمیشن میں چیف جسٹس پاکستان، سپریم کورٹ کے چار سینیئر جج، چار پارلیمنٹیرین یعنی دو سینیٹر اور دو قومی اسمبلی کے اراکین شامل ہوں گے۔‘

وزیر قانون نے مزید کہا کہ ’اس کے علاوہ اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون بھی اس کمیشن کا حصہ ہوں گے، جو ججوں کو نامزد کریں گے جبکہ پاکستان بار کونسل کے نمائندے بھی پہلے کی طرح جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔‘

چیف جسٹس پاکستان کے چناؤ کا طریقہ کار

وزیر قانون نے بتایا کہ ’مسودے میں ہائی کورٹ کے ججوں کے لیے حسن کارکردگی کا معیار بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس پاکستان کی نامزدگی کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ پہلے تین سینیئر ججوں میں سے ایک جج کو چیف جسٹس پاکستان نامزد کیا جائے گا، کیونکہ یہی طریقہ کار ہائی کورٹ سے سینیئر ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کے لیے عہدے کی مدت تین سال ہو گی۔ ’چاہے کوئی 65 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے یا 60 سال کی عمر میں، عمر کے لحاظ سے ریٹائرمنٹ کی مدت نہ بڑھے گی نہ کم ہو گی بلکہ صرف عہدے کی مدت قابل عمل ہو گی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ ’یہ ترامیم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے آ رہی ہے تو کیا وہ عہدے کی مدت کے مزید دو سال لینے کے اہل ہیں؟‘ وفاقی وزیر قانون نے واضح کیا کہ ’چیف جسٹس کے لیے عمر کی آخری حد 65 برس ہی رہے گی، اس لیے کوئی اگر 64 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 65 برس میں ریٹائر ہو گا۔ عمر کی حد میں اضافہ نہیں کیا گیا، لیکن اگر کوئی 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 63 میں عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد ریٹائرڈ تصور ہو گا، اسے عمر کے دو سال مزید نہیں ملیں گے۔‘

مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس بھی آج طلب کیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کا 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کا اعلان

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے ووٹ نہیں دے گی۔

اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ہمارا ساتھ ہمیشہ رہے گا لیکن اس بل کی حمایت نہیں کر سکتے۔ مولانا کا بہت بہت شکریہ۔‘

اس موقعے پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’18ویں ترمیم کے وقت بھی حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھی تھی۔ ہم نے مل کر محنت کی ہے لیکن ایک پارٹی کی اپنی ایک مخصوص پوزیشن ہوتی ہے اس لیے جبر نہیں کرسکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے تو پی ٹی آئی حق پر ہے، جائز احتجاج کر رہے ہیں۔ اتفاق رائے ملکی سطح پر ہو رہا ہے، جو بل مسترد کیا تھا وہ بل اب نہیں رہا۔ اگر چھوٹے موٹے تحفظات رہ گئے ہیں تو اپنی ترامیم دیں گے۔‘

مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا: ’ابھی مفاہمت کا وقت ہے، بل پیش نہیں ہوا۔ ہم آئینی پیکج پر متفق ہیں۔ ہم نے شخصیات کو نہیں دیکھنا۔‘

آئینی ترامیم کے معاملے پر کشمکش اور ملاقاتیں

حکومت لگ بھگ ایک ماہ سے مجوزہ آئینی ترمیم کو پارلیمان سے منظور کروانے کے لیے کوشاں ہے لیکن مطلوبہ اکثریت نہ ہونے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مولانا فضل الرحمٰن کی مخالفت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام نے حکومت کا ابتدائی مسودہ مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وہ متفقہ آئینی ترامیم کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہفتے کو رات گئے مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت سے کوئی بڑا اختلاف نہیں رہا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’حکومت کے ساتھ کوئی بڑا متنازع نکتہ موجود نہیں ہے۔ اکثر اختلافی اجزا اب تحلیل ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے پورے ایک مہینے میں پی ٹی آئی کو بھی اعتماد میں لیے رکھا اور حکومت کے ساتھ جتنی پیش رفت ہوئی، ان کو اس سے آگاہ رکھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ 'میرے پاس بانی پی ٹی آئی کا جو پیغام پہنچا، وہ مثبت تھا اور میں ان کا شکرگزار ہوں۔‘

پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ قانون سازی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے چاہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست