ستمبر ہمیشہ فیشن کی دنیا میں نمائش کا مہینہ رہا ہے۔ وہ ماہ جس میں اگلی نشستوں پر نامور شخصیات اور کیٹ واک کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس سال بھی ستمبر مقابلے کا مہینہ رہا۔ لندن فیشن ویک اکسٹینکشن ریبیلین نے (عدم تشدد پر مبنی سماجی و سیاسی تحریک جس کا مقصد حکومت کو مجبور کرنا ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے راست اقدام اٹھائیں) اس نمائش کو روکنے کے لیے بنائے منصوبہ کے باوجود جاری رہا۔
اکسٹینکشن ریبیلین کا اختتامی مظاہرہ جنازے کے جلوس کی شکل میں تھا تا کہ ماحولیاتی تباہ کاری کی وجہ سے زندگی کو کھونے کی یاد منائیں۔
اس میں شک کی کم گنجائش تھی کہ ان دونوں میں سے کون جنگ جیتے گا۔ آپ 1.5 کھرب پاؤنڈ کی صنعت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی آسانی سے فتح کی امید رکھ سکتے ہیں۔ برٹش فیشن کونسل کے تخمینے کے مطابق ان پانچ دنوں میں دس کروڑ پاؤنڈ کے آڈر ممکن ہوئے جن کو باآسانی سے ٹھکرایا نہیں جا سکتا۔ تاہم اگر یہی صورت حال بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہی تو ہم سب جنگ ہار جائیں گے۔
فیشن کی سب سے قابل ذکر کامیابی یہ ہے کہ اس نے ہماری توجہ ان تباہ کاریوں اور ضیاع سے پھیر لیا ہے جو اس کے خوبصورت نقشوں کے پیچھے ہے۔ (اس لحاظ سے) ماحولیاتی تباہی کی اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق فیشن دنیا میں دوسری بڑی آلودگی پھیلانے والی صنعت ہے۔
یہ اعداد و شمار متنازع ہونے کے باوجود، اس صنعت کے ماحول کے لیے منفی اثرات کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ یہ مجموعی طور پر تمام بین الاقوامی پروازوں اور بحری جہازوں سے زیادہ کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہے۔ جینز کا ایک جوڑا بنانے کے لیے 7500 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ اتنی مقدار ایک اوسطاً فرد سات سالوں میں پیتا ہے، لیکن ہم اپنے کپڑے اوسطاً دو سالوں کے لیے ہی رکھتے ہیں۔
نت نئے لباس کا ہمارے حریص طلب پورا کرنے کے لیے، ہر سال 100 ارب سے زائد اجزا (آئٹمز) بنائے جاتے ہیں اور بیشتر کے لیے پہلے سے غیر استعمال شدہ مواد استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس طرح سالانہ اس فائبر کا، جو ٹیکسٹائل اور کپڑے بنانے میں استعمال ہوتا ہے، 5.3 کروڑ ٹن میں سے 73 فیصد یا تو جلا دیا جاتا ہے یا پھر گڑھوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔
وسط ایشیا میں دنیا کے چوتھے بڑے بحیرہ یورال کے، جو ایک زمانے میں کھارے پانی کی چوتھی سب سے بڑی جھیل تھا، خشک ہونے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک کپاس ہے، جو بہت زیادہ پانی پیتی ہے اور جسے کیڑے مار دوائیوں کی زیادہ مقدار چاہیے۔ اس سال اب تک ایمیزون میں آگ کے 41 ہزار واقعات اور تباہی کا ذمہ داروں میں سے ایک چمڑے کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
مصنوعی یا ویگن (جو جانوروں سے حاصل نہیں کئے جاتے) اشیا تیل کی صنعت سے حاصل کی جاتی ہیں، اس کی پیداوار یا نگہداشت بھی زیادہ بہتر نہیں ہوتی۔ مصنوعی کپڑوں کی دھلائی سے پانچ لاکھ ٹن نظر نہ آنے والے فائبر پیدا ہوتے ہیں، تین ارب بیرل تیل کے برابر، جس کو ہر سال سمندر میں گرایا جاتا ہے۔ اور پھر ہم بھی ایک ہی جوڑے میں دوبارہ نمودار ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ہفتے 1.1 کروڑ اجزا زمین پر پھینک دیے جاتے ہیں۔
برطانیہ میں چیزوں کے ایک بار استعمال کے بعد پھینکنے کا رواج تیزی سے عام ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہم دس سال پہلے کی نسبت اور دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں دوگنا زیادہ کپڑے استعمال کرتے ہیں۔
گل فیدرکا، آکسفیم کے پائیدار فیشن کے ماہر کہتی ہیں کہ ’زیادہ تعداد میں خریداروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی (اس سوچ سے زیادہ پیار کرتا ہے) کہ موج تب آتی ہے جب آپ کوئی نئی چیز خریدیں، اگر چہ یہ صرف آپ کے لیے نئی ہو۔‘ اور یہی #سیکنڈہینڈستمبر مہم کا روح رواں تھی۔ خیراتی ادارے لوگوں کو اس ماہ کچھ بھی نیا نہ خریدیں، ان کی کوشش ہے کہ زمین پر پھینکنے یا منافع کمانے کی بجائے یہ چیزیں فلاحی دکانوں کے پاس چلی جائیں۔
ونٹیج، ریٹرو اور پری لوڈ جیسے دوبارہ چھاپ کیے گئے نام سے استعمال شدہ اشیا کی مارکیٹ کی کشش تیزی سے بڑھ رہی ہے اور سیل بھی— اور یہی امید کی کرن ہے۔ گلوبل ڈیٹا انالیسز فار تھریڈ اپ کے مطابق اگر یہ بڑھتا ہوا رجحان پروان چڑھتا گیا تو پیشن گوئی کی جا رہی ہے کہ آنے والے دس سالوں میں فاسٹ فیشن کے مقابلے میں پری لوڈ مارکیٹ 50 فیصد بڑھ جائے گی۔ فیشن سے پیار کرنے والے یا اس پیشے سے وابستہ افراد بھی اب اس پر آمادہ ہو رہے ہیں کہ اپنی مصنوعات کی الماریوں (وارڈ روبز) کو رینٹل پلیٹ فارمز کے ساتھ کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے منسلک کریں تاکہ امریکہ کی مارکیٹ میں بھی ظاہر ہو سکے جو بڑے رینٹل کاروبار جیسے کہ ’رینٹ دی رن وے‘ کے لیے بھی خاص آئٹمز بناتا ہے۔
علیشا میراندہ، ناٹ مائی سٹائل فیشن اپلیکیشن کی بانی، کا کہنا ہے کہ ’اس سال میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں امریکی شہر سیئیٹل گئی ہوئی تھی اور عملاً میں نے جس عورت کو روک کر پوچھا کہ اس نے اپنے کپڑے کہاں سے لیے تو اس کا جواب ’رینٹ دی رن وے‘ تھا۔ امریکہ میں ہر کوئی جس کو میں جانتی ہوں یہ نہ صرف رسمی لباس کے طور پر استعمال کرتا ہے بلکہ کام کے لباس یا میٹرنٹی لباس کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی یہی تصور یہاں اپنائیں۔‘
مسلسل گھومنے والی الماریوں کا تصور اگر چہ پرکشش ہے اور یقیناً کوئی چیز خریدنے اور ایک دفعہ استعمال کرنے کے مقابلے میں زیادہ پائیدار بھی، لیکن یہ پلیٹ فارمز ابھی تک اس کو دھیان نہیں دیتی کہ یہ کپڑے کہاں یا کیسے بنیں۔ استدلال، انسانی قیمت فیشن میں انتہائی شرمناک پہلو ہے۔
فیشن ریولوشن کے بانی و کریٹیو ڈائریکٹر ارسولا ڈی کاسٹرو بتاتے ہیں، ’یہ بہت مشکل ہے کہ صارف کو گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتوں کے حالت زار کا احساس دلایا جائے جب وہ اپنے آپ کو بہتر طریقے سے محفوظ نہیں کر سکتیں۔ فیشن کے دوسرے پہلو جس طرح گند یا ذخیرے کا جلانا، پر مشتعل ہونا بہت آسان ہے۔‘
ایک وجہ یہی ہے کہ پچھلے سال ’بربری‘ کے 2.8 کروڑ پاؤنڈ کے عیش و عشرت والے کپڑوں کے جل جانے کا واقعہ پہلے صفحے کی خبر بنی، جبکہ یہ خبریں بمشکل پچھلے ماہ سرخی بنی کہ مالکان نے ملازم عورتوں کو اس بنا پر سیکس پر مجبور کیا کہ ان کے جینز بنانے والے فیکٹریوں (جیسا کہ لیوی، ورنگلر اینڈ لیوائے) میں کام کرنے کے کنٹریکٹ کو محفوظ کیا جائے۔
ایک گواہ نے بتایا ’میرے ڈیپارٹمنٹ کی تمام عورتیں سپروائزر کے ساتھ سو چکی ہیں۔ ان عورتوں کے لیے یہ بقا کا مسئلہ ہے اور بس۔ اگر کوئی نہ کرے تو اس کا روزگار ختم ہو گا یا اس کے معاہدے کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ جنوبی افریقہ کے ایک آزاد ملک لی سوتھو میں ان تین فیکٹریوں کا مالک تائیوان سے تعلق رکھنے والے گلوبل جینز مینو فیکچرر نائن شنگ ٹیکسٹائل 10،000 افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
نائن شنگ کے بیان کے مطابق کمپنی میں 2005 سے کسی منیجر یا سپروائزر کو جنسی ہراسیت پر سزا نہیں دی گئی ہے، اور کمپنی نے زیادتی کا الزام مسترد کیا۔ حقوق کارکنان کی تنظیم (ڈبلیو آر سی)، جس نے 18 ماہ میں 140 ملازمین سے شہادتیں حاصل کیں، کے پاس اس بیان سے اختلاف کرنے کے لیے بہت سارے شواہد موجود تھے۔ اس نے واضح طور پر دیگر برانڈز کو بھی مبینہ رضاکارانہ ضابطہ اخلاق اور نگرانی پروگرامز کے باوجود ان خلاف ورزیوں کی نشاندہی نہ کرنے پر ان جرائم میں ملوث ٹھہرایا، جنھوں نے زیادتیاں ہونے دیں۔
ہاروی وینسٹین کی اور # می ٹو تحریک کے بعد سامنے آنے والی تمام کہانیوں کے بعد اب یہ محض اس بنا پر کہ ’ہمیں معلوم نہیں تھا‘ مزید قابل اعتراض نہیں رہا۔ لیکن جب بار ثبوت مکمل طور پر متاثرین کے کندھوں پر ہو، ایسے متاثرین جن کے پاس ایسا پلیٹ فارم نہ ہو جہاں سے وہ بول سکیں اور جو اپنی ملازمت کھونے کے بڑے خطرے سے دوچار ہوں، تو پھر یہ برانڈز کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ قابل مواخذہ ہونے کو مسترد کریں۔ ڈی کاسترو کا کہنا ہے، ’یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم تمام ملازمین کو یونین بنانے دیں تاکہ انہیں اجتماعی گفت و شنید اور مدد تک رسائی حاصل ہوسکے۔‘
موثر طور پر، ڈبلیو آر سی نے سفارش کی کہ یہ برانڈز کارخانوں سے اپنی جینز خریدنا جاری رکھیں کیونکہ نوکری ختم ہونا ملازمین کے لیے اقتصادی طور پر تباہ کن ہوگا۔ بلکہ وہ تجویز کرتے ہیں کہ اگر نائن شنگ اپنے نئے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتا تو برانڈز اپنے فرمائش کم کرنے کے ذریعے اپنی طاقت استعمال کریں۔ برانڈز کے پاس یہی طاقت ہے جس سےانہوں تبدیلی لانی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بنگلہ دیش میں رانا پلازہ فیکٹری کے انہدام اور اس میں 1138 مزدوروں کی ہلاکت کے چھ سال بعد قائم ہونے والے فیشن ریوالوشن نے انکشاف کیا ہے کہ کپڑے ان اشیاء میں شامل ہیں کہ خدشہ کیا جاتا ہے کہ یہ جدید غلامی کے تصور کے ذریعے بنائیں جائیں گے- اس دعوے کی تائید یونیورسٹی آف شیفیلڈ کی ایک حالیہ رپورٹ سے ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خریدار اس دنیا کی ایڈیڈاس، زاراز اور ہیگو بوسز کے ہاتھوں بیوقوف بن رہے ہیں ــــــ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ قیمت کا مطلب زیادہ اجرتیں نہیں ہے۔ (رپورٹ) یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ سپلائرز کا ضابطہ اخلاق صرف کاغذوں تک محدود ہے۔
پراجیکٹ رہنما پروفیسر گینیوائیو لی بیرن کہتے ہیں، ’صارفین وہ مصنوعات خرید رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان مزدوروں نے بنائی ہیں جو مناسب تنخواہ لے رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں، کپڑوں کی عالمی صنعت میں کم تنخواہ جوں کی توں ہے۔‘ اپنی نئی کتاب فیشنوپولس میں ڈانا تھامس کہتی ہیں کہ گارمنٹس سے وابستہ مزدوروں میں سے دو فیصد سے بھی کم لوگوں کو مناسب تنخواہ ملتی ہے۔ حتیٰ کہ برطانیہ میں بننے والے کپڑے خریدنا بھی مناسب تنخواہ کی ضمانت نہیں دیتا، جہاں کپڑے کی صنعت کے مزدوروں کو چار پاونڈ فی گھنٹہ ملنے کی اطلاعات ہیں ـــــ جو اس تنخواہ کی نصف سے بھی کم ہے جو 25 سال اور اس سے زائد عمر افراد کا قانونی حق ہے۔
کم تنخواہوں کی لالچ بھی ہمیشہ دلکش ہوتی ہے۔ این یو وائی کے مرکز برائے کاروبار و انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی ڈوروتھی بامن پاولے کی لکھی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ایتھوپیا اس صنعت کی نئی منزل ہے۔ ایتھوپیا کی حکومت کپڑے کے اپنے ابھرتے ہوئے گڑھ میں فیشن صنعت کے لیے کشش پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جہاں ادیس ابابا کے جنوب میں 140 چالیس میل دور واقع صنعتی پارک میں 25000 مزدور کام کرتے ہیں۔ 20 پاونڈ ماہانہ کی تنخواہ، ایشین سپلائرز اور مغربی خریداروں کے ساتھ کئے جانے والے بڑے وعدوں میں سے ایک ہے، اگر چہ یہ اوسط آمدنی سے 40 فیصد کم ہے اور اس سے بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔
پیچیدہ اور عموماً غیر واضح ترسیل کے سلسلے (سپلائی چین) برانڈز کو ہر قدم پر مزدوروں کی ذمہ داری اٹھائے بغیر قیمتیں گرانے کے اہل بنا لیتی ہے۔ اوپن اپیرل رجسٹری (او اے آر)، جو دنیا بھر میں کپڑوں کے اب تک 20000 مراکز کے ناموں اور پتوں کا تیزی سے پھیلتا ہوا مفت دستیاب نقشہ ہے، کی ایک سٹیک ہولڈر منیجر کیٹی شاء واضح کرتی ہیں، ’کپڑوں کی کوئی چیز بنانا اتنا سادہ نہیں ہوتا جتنا اس کے کم خرچے سے ظاہر ہوتا ہے۔‘
’یہ کہ آپ کے لباس پر 'میڈ ان ویت نام' کا لیبل کہانی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ بیان کرتا ہے؛ جہاں یہ لباس آخر میں کاٹ کر سلا ہوا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کی تمام مراحل کے بارے میں سوچیں، جس کے بعد یہ خریداروں کے پاس آتا ہے۔ آپ کو ہمارا ایک ایسا عالمگیر نظام فیشن نظر آئے گا جہاں ایک معمولی ٹی شرٹ بنانے کے عمل میں مختلف ممالک کے درمیان متعدد کھیپ کا تبادلہ ہوا ہوتا ہے۔‘ وہ او اے آر کو صنعت کے لیے ’سچائی کا بڑا ذریعہ‘ قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ اعداد و شمار وہ کمپنیاں پہلے سے ہی استعمال کر رہی ہیں جو غیرمنصفانہ طور پر فارغ کئے گئے مزدوروں کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کام کرتی ہیں یا جن پر تنخواہ واجب الادا ہوتی ہے۔
پرونینس بھی ان فیشن برانڈز کے ساتھ کام کرتا ہے جو شفافیت تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ان کی 'بلاک چین' ٹیکنالوجی رسد سلسلے کو کھولنے میں برانڈز کی مدد کرتی ہے اور خریداروں کو مصنوعات کے اثرات دکھاتی ہے۔
ایک بانی جیسی بیکر کہتی ہیں، ’میں برانڈز کے لیے ایک بڑا موقع دیکھ رہی ہوں کہ وہ ان خریداروں تک رسائی حاصل کریں جو اپنی قدروقیمت کے مطابق مصنوعات خریدنا چاہتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں، ’ہمارے لیے اگلی سرحد دیانت کے ساتھ شفافیت ہے، ہم ایورلین جیسی کمپنیاں دیکھ چکے ہیں جو ہمیں اپنے کارخانے دکھاتی ہیں اور ان کے اثرات کے معلومات دیتی ہیں، جو زبردست ہیں، لیکن جب ہر کسی کو معلومات تک رسائی حاصل ہوجائے گی تو پھر برانڈز کے لیے وہ چیزیں ثابت کرنا پڑیں گی جو وہ کہتے ہیں۔‘
فیشن میں پائیداری پر سرکردہ کاروباری ایونٹ کوپن ہیگن فیشن سمٹ نے اس سال اپنی دسویں سالگرہ منائی۔ اس کے تزویراتی شراکت داروں میں ایچ اینڈ ایم، نائیکے اور کیرنگ گروپ (جو گکسی اور وائی ایس ایل کا مالک ہے) شامل ہیں۔ یہ عملی طور پر انھی افراد کی فہرست ہے جنھوں نے گذشتہ ماہ بیارٹز میں جی سیون فیشن معاہدے پر دستخط کئے ہیں اور ایک اور مزید پائیدار مستقبل کی طرف منتقل ہونے کا وعدہ کیا ہے۔ کیرنگ کے چئیرمین اور چیف ایگزیکٹیو فرانسو ہنری پنالٹ (جس کی مالیت اطلاعات کے مطابق 3۔28 بلین پاونڈ ہے) نے کہا ’ہم اپنے مجموعی عمل اور مشترکہ مقاصد کے ذریعے اپنی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔‘
فیشن ریوالوشن کے ڈی کاسترو کہتے ہیں، ’یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، ہم ہر وہ سب دیکھ چکے ہیں جو یہ کہتے ہیں۔‘
حتٰی کہ آسان کرنے والے کام، جس طرح ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کا خاتمہ کرنا ہے، (ایسا کرنا) لازمی ہے اور اس کی حتمی تاریخ 2030 ہے۔ اس پر تو آج عمل ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر صورت حال اتنی سنگین نہ ہوتی تو اس کے پڑھنے سے مجھے ہنسی آتی۔‘
گلوبل فیشن ایجنڈا کی رپورٹ دی پلس کا کہنا ہے کہ اچھے ارادوں کے باوجود ماحولیاتی اثرات کے معاملے میں شعبے کی نمو کے مقابلے میں پیش رفت سست ہوگئی ہے۔ یونین آف دی کنسرنڈ ریسرچرز ان ٹو فیشن کا ایک تجزیہ بحث کو اس طرح سمیٹتا ہے: ’ابھی تک، یہ مشن بری طرح ناکام ہے اور تمام چھوٹی و بڑی تبدیلیو ں کو وسائل حاصل کرنے، خرچ اور ضائع کرنے اور مزدور کے استحصال کرنے والی تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت نے ڈبو دیا۔۔۔۔ اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ اس صنعت نے پرانے نظام کو درست کرنے کی کوشش میں 30 برس صرف کئے اور یہ نہ کہ بہتر بلکہ بد تر ہورہی ہے۔‘
حقیقی کوشش نہ کرنے کی صورت میں 2050 تک ٹیکسٹائل کی عالمی صنعت تمام کاربن اخراج کے ایک چوتھائی حصے کی ذمہ دار ہوگی۔ پہلا انقلابی لیکن بہت سادہ قدم، کم پیداوار اور کم کھپت ہے۔
لزی رویرا اخلاقی طرز زندگی سائٹ بی آئی سی بی آئی ایم کی بانی ہیں۔
© The Independent