یہ بڑی عام سی بات ہوتی ہے۔ آپ نے کسی خاص موقعے یا رات کے لیے بڑی محنت سے تیاری کی اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کافی اچھے لگ رہے ہیں۔ شاید اس سے بھی بہتر۔ کم از کم آپ کے سونے کمرے کے آئینے میں تو یہی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگلے دن جب آپ دوستوں سے وہ تصاویر بھیجنے کو کہتے ہیں جو وہ لے رہے تھے تو جو کچھ آپ کو ملتا ہے اسے دیکھ کر جھنجھلاہٹ ہوتی ہے۔
ہر تصویر میں آپ کی خامیاں واضح ہو کر سامنے آ رہی ہیں۔ آپ کا چہرہ عجیب طرح سے بگڑا ہوا لگتا ہے۔ آپ کے تاثرات، صاف صاف کہوں تو کچھ خوفناک سے ہیں۔ مزید برآں آپ کے مبینہ دوست نے ایک تصویر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہوتا ہے کہ ’مجھے تمہاری یہ والی تصویر بہت پسند آئی۔‘ حالاں کہ اس تصویر میں آپ خاص طور پر بدصورت لگ رہے ہوتے ہیں۔ کیا وہ آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ یا پھر آپ واقعی کسی ٹیلی ویژن میک اوور شو سے ’پہلے‘ لی گئی تصویر کی طرح دکھائی دیتے ہیں؟
اپنی تصاویر دیکھنا حوصلہ شکن اور بعض اوقات خوفناک تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسے مزید بدتر بنانے والی چیز یہ ہے کہ جب آپ اپنے دوستوں کے ساتھ تصویریں لیتے ہیں تو سب کچھ ٹھیک اور نارمل نظر آ رہا ہوتا ہے اور پھر وہ اصرار کرتے ہیں کہ، حقیقت میں، اُن کے آئی فون سے کھینچی گئی یہ تصویر تو بہت ہی اچھی ہے۔ چاہے آپ کا خوداعتمادی کا معیار عموماً مضبوط ہو اور آپ ظاہری صورت کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں، ایک غیر مناسب تصویر آپ کی اعتماد کو شدید متاثر کر سکتی ہے اور ایک منفی خیالات کا سلسلہ شروع کر سکتی ہے۔
قبل ازیں اسی ہفتے میرے سوشل میڈیا فیڈ پر ایک میم نظر آئی جس نے بڑی مہارت سے اس احساس کو بیان کیا، اور ثابت کیا کہ یہ احساس تقریباً ہر کسی میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایک مسکراتی ہوئی خاتون کی تصویر تھی جو موبائل پکڑے ہوئے تھیں اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ ’جب کوئی معصومانہ انداز میں مجھے میری ہی تصویر دکھاتا ہے تو میری ذہنی صحت پر اگلے تین سے پانچ کاروباری دنوں تک برا اثر پڑ سکتا ہے۔‘
تو آخر ہم اپنے آپ کو تصویروں میں دیکھ کر اتنا برا کیوں محسوس کرتے ہیں؟ ہمارا اس طرح برا محسوس کرنا ایک نفسیاتی رجحان سے جڑی ہوا ہے جسے ’میئر ایکسپوژر ایفیکٹ‘ (mere-exposure effect) کہا جاتا ہے، یعنی ’لوگ ان چیزوں کو پسند کرنے لگتے ہیں جنہیں وہ بار بار دیکھتے ہیں۔‘
نیوروسائنس کے ماہر اور ہلٹ انٹرنیشنل بزنس سکول میں کنزیومر سائیکالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر میٹ جانسن نے اس صورت حال وضاحت کی ہے۔ جانسن کہتے ہیں کہ ’چونکہ ہم آئینے میں اپنا عکس تصاویر کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیکھتے ہیں اس لیے ہم اس سے زیادہ مانوس ہو جاتے ہیں۔‘
اگر آپ ہر صبح گھر سے نکلنے سے پہلے باتھ روم کے آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہیں، تو آپ اس مخصوص تصویر سے مانوس ہونے لگتے ہیں۔ ایلویزسکنر، جو ایک سائیکو تھراپسٹ ہیں اور بچپن سے ایک کمرشل ماڈل بھی رہی ہیں، اس بات سے متفق ہیں کہ ’آپ عموماً خود کو ایک ہی آئینے، ایک ہی روشنی میں اور ایک ہی زاویے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پھر جب ایک تصویر لی جاتی ہے، تو وہ آپ کو ایک ایسے زاویے سے دکھا سکتی ہے جس سے آپ نے اپنی شکل یا جسم کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا، اس لیے یہ کچھ اجنبیت کا احساس پیدا کر سکتی ہے۔‘
آئینے میں آپ جو اپنا چہرہ دیکھتے ہیں، وہ سامنے سے پیچھے کی طرف الٹا ہوتا ہے جس میں آپ کے چہرے کی غیر متوازن خصوصیات بھی پلٹ جاتی ہیں۔ تاہم تصویر میں ایسا نہیں ہوتا (آپ کے فون کا فرنٹ کیمرہ بھی عام طور پر الٹا ہوتا ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ آپ کو سیلفی زیادہ پسند کیوں آتی ہیں)۔ جانسن مزید بتاتے ہیں اس کی بجائے یہ ہماری ’حقیقی‘ تصویر دکھاتا ہے جو معمول نہ ہونے کی وجہ سے اجنبی اور کم پرکشش محسوس ہوتی ہے۔، ہم بس خود کو اس طرح دیکھنے کے عادی نہیں ہوتی۔ اسی لیے اجنبیت کا احساس ہوتا ہے جیسے کہ ’یا خدا کیا یہ واقعی میں ہوں؟‘ لیکن چوں کہ ہم اپنے دوستوں اور گھر والوں کی ’حقیقی‘ شکل کو اکثر حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں، اس لیے ہمیں ان کی تصویریں زیادہ قدرتی اور ان کی اصل شکل کے قریب محسوس ہوتی ہیں
بس اس وقت کو یاد کریں جب سکول کی تصاویر دی جاتی تھیں اور باقی سب کی تصویریں بالکل نارمل لگتی تھیں، جبکہ آپ کی تصویر مجرم کے کسی خوفناک خاکے کی جیسی لگ رہی ہوتی تھی۔ جانسن کہتے ہیں: ’ہم دوسروں کی حقیقی تصویر کو زیادہ بار دیکھتے ہیں بجائے اس کی کسی تبدیل شدہ شکل کے۔ اس لیے ہم اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، ہمیں ان کی تصویروں میں جو شکل نظر آتی ہے اور جو توقع ہم رکھتے ہیں ان کے درمیان کوئی ایسا اجنبی احساس نہیں ہوتا۔‘ آپ یقین رکھیں کہ وہ بھی شاید سوچتے ہیں کہ ان کی تصویر خوفناک لگ رہی ہے۔
70 کی دہائی میں ایک کلاسیکی نفسیاتی تجربے میں اس خاص رجحان کا مطالعہ کیا گیا۔ محققین نے نوجوان خواتین کے ایک گروپ سے کہا کہ وہ اپنی حقیقی تصویر اور آئینے میں نظر آنے والی تصویر دیکھیں۔ انہوں نے اپنی آئینے کی تصویر کو زیادہ پسند کیا لیکن جب وہی تصاویر ان کے قریبی دوستوں کو دکھائی گئیں تو دوست حقیقی تصویر کی طرف مائل ہو گئے (جس سے وہ حقیقی زندگی میں زیادہ واقف تھے۔) جانسن کا کہنا ہے یہ مطالعہ اس سوچ کی تائید کرتا ہے کہ اپنی تصویروں کو ناپسند کرنا ہمارے دکھائی دینے کے انداز کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔‘
اگلی بار جب آپ اپنے دوست کے سامنے کوئی خاص طور پر خوفناک تصویر رکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ’کیا میں واقعی ایسے لگتا ہوں؟‘ تو اگر وہ دبی ہوئی آواز میں جواب دیتے کہ ’اوہ ہاں‘ تو انہیں اپنی زندگی سے نکالنے کی کوشش نہ کریں۔ وہ آپ کی خوداعتمادی کو توڑنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ یہ بس مانوسیت کا معاملہ ہے۔ یہ تو محبت کرنے والا کوئی شخص بھی کہہ سکتا ہے۔ جانسن کہتے ہیں کہ ’ہمارے دماغ بھی ان چہروں کو جو ہم بار بار دیکھتے ہیں انہیں زیادہ آسانی سے پروسیس کرتے ہیں جس سے وہ ہماری نظر میں زیادہ واضح یا زیادہ خوشنما لگتے ہیں۔ تو جب ہماری اپنی تصاویر ہمیں عجیب محسوس ہوتی ہیں تو دوسروں کی تصاویر ہمیشہ کی طرح دیکھنے کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ لگتی ہیں۔‘
ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی حقیقی شکل (اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم کتنے خوبصورت ہیں) کا صحیح اندازہ لگانے میں اتنے ماہر نہیں ہیں۔ ڈاکٹر ولیم وان گورڈن جو یونیورسٹی آف ڈربی میں ذہن سازی کی نفسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، وضاحت کرتے ہیں کہ ’کچھ سیاق و سباق اور حالات میں، لوگوں کے لیے ’سیلف-ان ہینسمنٹ بائس‘ (self-enhancement bias) نامی ایک نفسیاتی رجحان کا مظاہرہ کرنا عام عام ہے جس میں وہ اپنی مثبت خصوصیات کا زیادہ اندازہ لگاتے ہیں اور اپنی اور دوسروں کی ذات کی شناخت کے درمیان فرق کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔‘ لہذا ہم میں سے کچھ لوگ یہ یقین کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی حقیقی شکل سے تھوڑا زیادہ دلکش ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ رجحان ’وسائل اور تولیدی مواقع کے لیے مقابلہ کرنے کی ضرورت کے ساتھ ہمارے ارتقائی ترقی سے منسلک ہے۔‘
2008 میں کی گئی ایک تحقیق میں شرکا سے کہا گیا کہ وہ اپنی تصاویر کا اندازہ لگائیں جن میں ان کے چہروں کو تبدیل کیا گیا تاکہ وہ زیادہ یا کم دلکش نظر آئیں، اور وہ ان میں سے وہ تصویر منتخب کریں جو ان کی شکل کے سب سے زیادہ قریب لگے۔ نتیجتاً، وہ، چھپانے والی بات، اپنی خوبصورت نظر آنے والی تصویر کی طرف مائل ہو گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے ایک دوست کے چہرے کے ساتھ بھی یہی کیا، لیکن اجنبیوں کے چہرے کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ وان گورڈن کہتے ہیں۔ ذات کو بہتر بنانے کے اس رجحان کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ ’جب لوگوں کو ان کی تصویر دکھائی جاتی ہے تو وہ اپنی تصویر میں کتنے دلکش نظر آتے ہیں، اس کے مقابلے میں ان کے ذہن میں موجود تصور کے لحاظ سے کمی محسوس کر سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اس تصویر کو ناپسند کرنے لگتے ہیں۔‘
کیا آپ اس خاص قسم کی خود فریبی، جو خود اعتمادی سے بھرپور ہے، کا شکار نہیں ہو سکتے؟ میں بھی نہیں۔ جو چیز آپ کو زیادہ مانوس لگ سکتی ہے وہ ہے ’اسپاٹ لائٹ اثر‘ جو ایک اور تعصب ہے جو جیسا کہ جانسن کے مطابق ’ہمیں یہ یقین دلانے کی طرف مائل کرتا ہے کہ دوسرے ہماری شکل و صورت کا اتنا ہی بغور جائزہ لے رہے ہیں جتنا ہم خود لیتے ہیں۔‘ جانسن کا کہنا ہے کہ یہ ’بڑھی ہوئی خود آگاہی ہمیں تصاویر دیکھتے وقت ضرورت سے زیادہ خود شناس بنا سکتی ہے۔‘ لیکن ہم شاید اپنے عیبوں پر زیادہ توجہ دیتے جتنا کہ دوسرے لوگ دیتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ آپ کی ناک انسٹاگرام کی اس تصویر میں عجیب لگ رہی ہے جس میں آپ کو ٹیگ کیا گیا ہے۔ وہ اس بات میں مصروف ہیں کہ آیا ان کا جبڑا ابھرا ہوا ہوئی نظر آ رہا ہے یا ان کے دانت ٹیڑھے نظر آ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسا کہ جانسن کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اپنی خوبصورتی اور ان لوگوں کی خوبصورتی، جن سے ہم اچھی طرح واقف ہیں، کا اندازہ ’اکثر ہماری جذباتی کیفیت اور سوچ کے تعصبات سے متاثر ہوتا ہے، بجائے کسی بے لاگ تجزیے کے۔‘
دوسروں اور اپنے بارے میں ہمارے جذبات اس بات پر اثر انداز ہوتے ہیں کہ ہم خود کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ سپینسر کہتی ہیں: ’ہم اپنے دوستوں کی ایک تصویر دیکھیں گے اور چاہے وہ ان کا سب سے خوبصورت زاویہ کیوں نہ ہو، پھر بھی ہم اس شخص کو دیکھنا گے جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔‘
’ہم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں اور ان میں کوئی عیب نہیں دیکھتے کیونکہ ہم انہیں ایک مکمل شخص کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ جب ہم خود کو دیکھتے ہیں، تو ہم اپنی شکل کے بارے میں خاص خاص چیزیں نکال رہے ہوتے ہیں۔‘
2021 میں ایک مطالعے نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم اپنے بارے میں ذہنی تصاویر کیسے بناتے ہیں۔ تحقیق کے شرکا سے کہا گیا کہ وہ کمپیوٹر کی مدد سے اپنا پورٹریٹ بنائیں اور اپنی شخصیت اور خود اعتمادی کے بارے میں سوالات کے جواب دیں۔ جو کام انہوں نے اپنے بارے میں یقین ساتھ کیے، وہ ان کی بنائی تصویر پر گہرے اثرات ڈال گئے۔
کیا ہماری اپنی تصاویر سے بیزاری پر قابو پانے کا کوئی طریقہ ہے؟ سکنر کا خیال ہے کہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو قدرتی طور پر تصاویر میں اچھے لگتے ہیں۔ ’جیسے ہر معاملے میں، میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ (تصویر کے لیے مخصوص انداز اختیار کرنا) ایک مہارت ہے جسے آپ سیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ آپ مشق کریں گے، اتنا ہی بہتر ہو جائیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مختلف تاثرات جاننا اور یہ جاننا کہ یہ (تصاویر میں) آپ کو کس طرح نظر آئیں گے، مجھے معلوم ہے کہ یہ تھوڑا عجیب لگتا ہے، لیکن مشق کرنے سے واقعی چیزیں بہتر ہوں گی۔‘
اور جانسن کا کہنا ہے کہ تیار ہو جائیں ہمیں اپنی ’حقیقی تصویر‘ کے ساتھ صحیح طور پر جڑنا ہوگا۔ اسے ’بار بار دیکھ‘ کر۔ اس سے وقت کے ساتھ ناگواری میں کمی آئے گی۔ مزید برآں وہ کہتے ہیں کہ ہم پر اثر انداز ہونے والے تعصبات کا دھیان رکھنا اور اپنی ذات کے ساتھ تھوڑی زیادہ ہمدردی رکھنے کی کوشش کرنا ’ذات کے بارے میں زیادہ صحت مند اور متوازن ادراک حوصلہ افزائی‘ میں مدد کر سکتا ہے۔ پرانا قول ہے کہ کیمرہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بات اتنی سیدھی سادی نہیں۔
© The Independent