ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے بدھ کو برکس سربراہ اجلاس میں رہنماؤں پر غزہ اور لبنان میں ’جنگ ختم‘ کرنے پر زور دیا۔
یہ اہم اجلاس 22 سے 24 اکتوبر تک روس کے شہر کازان میں جاری رہے گا۔ اس میں چین کے صدر شی جن پنگ، انڈیا کے نریندر مودی اور کئی دیگر عالمی رہنماؤں سمیت ترقی پذیر معیشتوں کے برکس بلاک کے رہنما اکٹھے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر نے اجلاس میں خطاب کے دوران کہا ’میں برکس گروپ کے تمام بااختیار رہنماؤں پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی صلاحیتوں کو غزہ اور لبنان میں جنگ ختم کرنے کے لیے استعمال کریں۔‘
اس سے قبل امریکی ڈیجیٹل چینل ’آمو ٹی وی‘ کے مطابق روس میں ہونے والا برکس سربراہ اجلاس منگل کو طالبان کی شرکت کے بغیر شروع ہوا، حالانکہ انہوں نے شرکت کی درخواست کی تھی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا کہ روسی صدر ولادی میر پوتن اس تین روزہ سربراہی اجلاس کو ایک موقعے کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں وہ یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ یوکرین میں ان کے اقدامات کی وجہ سے امریکہ کی روس کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔
روس کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف نے اس تقریب کو روس کی جانب سے منعقد ہونے والا ’خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا پروگرام‘ قرار دیا، جس میں 36 ممالک نے شرکت اور 20 سے زیادہ سربراہان مملکت نے نمائندگی کی۔
بنیادی طور پر برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس اتحاد تیزی سے ایران، مصر، ایتھوپیا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب تک پھیل گیا ہے۔ ترکی، آذربائیجان اور ملائیشیا جیسے ممالک نے باضابطہ طور پر رکنیت کے لیے درخواست دی ہے، اور کئی دیگر نے شمولیت میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے.
اس سربراہی اجلاس کو روس کی وسیع تر حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کا مقصد مغرب کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان عالمی جنوب کی حمایت کا مظاہرہ کرنا ہے جبکہ اقتصادی اور مالی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔
مجوزہ منصوبوں میں ایک نیا ادائیگی کا نظام تشکیل دینا ہے جو عالمی بینک میسجنگ نیٹ ورک سوئفٹ کے متبادل کے طور پر کام کرے گا، جس سے ماسکو مغربی پابندیوں سے بچ سکے گا اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ تجارت کر سکے گا۔
سمٹ کے آغاز پر پوتن نے سائیڈ لائن پر دو طرفہ ملاقاتیں کیں اور شی جن پنگ، مودی اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامفوسا سے بات چیت کی۔
ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو شی جن پنگ نے اجاگر کیا، جنہوں نے ان تعلقات کو ’عالمی میدان میں استحکام کے اہم عوامل میں سے ایک‘ قرار دیا۔
پوتن نے عالمی استحکام اور منصفانہ عالمی نظام کو فروغ دینے کے لیے مختلف کثیر الجہتی فورمز پر تعاون بڑھانے کا عہد کیا۔
روس اور انڈیا کے درمیان تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے، روس کے انڈیا کے حریف چین کے ساتھ تعلقات میں اضافے کے باوجود نئی دہلی سرد جنگ کے بعد سے ماسکو کو ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھتی ہے۔
جہاں مغربی اتحادی انڈیا کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ماسکو پر زور دے کہ وہ یوکرین میں جنگ ختم کرے، وہیں مودی نے روس کی براہ راست مذمت کیے بغیر پرامن طریقے سے مسائل حل کرنے کی بات کی ہے۔
پوتن نے روس اور انڈیا کے درمیان ’خصوصی تزویراتی شراکت داری‘ کی تعریف کی اور ’منصفانہ، کثیر قطبی عالمی نظام‘ قائم کرنے کے مشترکہ مقصد پر زور دیا۔
انہوں نے رامفوسا کے ساتھ ملاقات کے دوران برکس ارکان کے لیے ایک نیا آزاد ادائیگی کا نظام تیار کرنے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی۔
اس سربراہی اجلاس میں پوتن اور مختلف ممالک کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت دیکھنے میں آئی، جس میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے ان کی ملاقات بھی شامل ہے، جنہوں نے ماسکو اور قاہرہ کے درمیان تعلقات کی ’متحرک ترقی‘ کا اعتراف کیا۔
علاوہ ازیں پوتن اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویتریش سے بھی ملاقات کریں گے جو گذشتہ دو سال میں گویتریش کا پہلا دورہ روس ہے۔ سیکریٹری جنرل یوکرین میں روس کے اقدامات پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
طالبان کی عدم موجودگی برکس اتحاد کے اندر نازک سفارتی توازن کی نشاندہی کرتی ہے۔
سمٹ میں شرکت اور سیاسی فائدہ اٹھانے کی امیدوں کے باوجود، ماہرین کا خیال ہے کہ برکس ممالک اس گروپ کو مدعو کرنے کے بارے میں محتاط تھے، اس خوف سے کہ اس سے مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے کسی بھی ملک کی جانب سے تسلیم نہ کیے جانے والے طالبان کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے اور انہوں نے ان رکاوٹوں سے بچنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے برکس میں شرکت کی کوشش کی ہے۔