امریکی صدارتی انتخابات 2024 کے لیے ارلی ووٹنگ کا عمل یکم نومبر کو ختم ہو رہا ہے اور اب تک کے اندازوں کے مطابق بڑی تعداد میں امریکیوں نے اس عمل میں حصہ لیا۔
31 اکتوبر تک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ’ارلی ووٹنگ‘ کے ذریعے پانچ کروڑ، 39 لاکھ سے زیادہ افراد نے ووٹ کاسٹ کیا۔
ارلی ووٹنگ ختم ہونے کے تین دن بعد پانچ نومبر کو امریکہ کے آئندہ صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہو گی۔
اس الیکشن میں ٹرمپ اور کملا کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے اور دونوں امیدوار ایک دوسرے پر سیاسی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں دونوں امیدواروں کی توجہ سات سوئنگ ریاستوں پر ہے کیوں کہ ان کے انتخابی نتائج فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ساتوں سوئنگ ریاستوں میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔ تاہم ان میں مشی گن اور پنسلوانیہ اہم ہیں۔
دیگر سوئنگ ریاستوں میں وسکونسن، نارتھ کیرولینا، اریزونا، جارجیا اور نیواڈا کا نام لیا جا رہا ہے۔
ریاست ٹیکساس میں بھی زبردست انتخابی گہما گہمی جاری ہے اور یہاں کی پاکستانی اور مسلمان برادری انتہائی سرگرم ہے۔
شہر ہیوسٹن کی فورٹ بینڈ کاؤنٹی میں پریسینٹ تھری کے کانسٹیبل کے عہدے کے لیے ہونے والا انتخابی مقابلہ امریکی حلقوں میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں دو پاکستانیوں رپبلیکن امیدوار علی شیخانی اور ڈیموکریٹک امیدوار نبیل شائق مد مقابل ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کے طرز حکومت خاص طور پر افراد زر میں اضافے اور اسرائیل نواز پالیسی کی وجہ سے امریکی ووٹرز کی بڑی تعداد کا جھکاؤ رپبلکن پارٹی کی طرف نظر آتا ہے۔
خصوصاً مشی گن اور کئی ریاستوں میں مسلمان رہنماؤں اور مذہبی عالموں نے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم پاکستانی امریکن ڈیموکریٹک رہنما طاہر جاوید کا کہنا ہے کہ ہیوسٹن سمیت پوری ریاست ٹیکساس میں ڈیموکریٹ جماعت کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو رہا ہے اور جلد ہی ریاست ٹیکساس ’اگر ڈیموکریٹ کی حامی نہیں تو کم از کم سوئنگ ریاست ضرور بن جائے گی۔‘
طاہر جاوید کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر علاقے میں سیاست مقامی سطح کی ہوتی ہے۔
ان کے بقول پاکستانی ہوں، مسلمان یا امریکی برادری ان کے مفادات اور توجہ کا مرکز مقامی سیاست اور امیدوار ہوتے ہیں۔
علی شیخانی کا کہنا ہے کہ قومی سطح سے لے کر شہری اور کاؤنٹیز کے عہدوں کے لیے ہونے والے الیکشن میں پاکستانی اور مسلمان امریکی ووٹرز کا رحجان رپبلکن پارٹی کی طرف ہے۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کا ووٹر خصوصاً پاکستانی اور جنوبی ایشیائی برادری رپبلکن پارٹی کی طرف مائل ہیں۔