امریکہ میں پر چار سال کے بعد نومبر کے پہلے منگل کو صدارتی الیکشن ہوتے ہیں، جن کا فاتح اگلے چار سالوں تک وائٹ ہاؤس چلاتا ہے۔
امریکی تاریخ میں دو بڑی سیاسی جماعتوں رپبلکن اور ڈیموکریٹ کے درمیان سخت مقابلہ رہا ہے اور اس بار بھی صورت حال مختلف نہیں۔
امریکی الیکشن میں طریقہِ انتخاب کی وجہ سے کسی امیدوار کی جیت ایک دلچسپ مرحلہ ہوتا ہے۔
امریکہ میں ووٹنگ کس طرح ہوتی ہے؟
امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹ تین طریقوں سے ڈالا جاتا ہے۔ الیکشن کی مقررہ تاریخ پر بیلیٹنگ کے علاوہ لوگ پہلے ہی بذریعہ ڈاک ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
دوسرا طریقہ ’ارلی ووٹنگ‘ کہلاتا ہے جس میں ووٹر اپنے قریبی مقرر کردہ مقام، جو بیشتر اوقات ڈیپارٹمنٹ آف موٹر وہیکل (ڈی اہم وی) ہوتا ہے، جا کر ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
دراصل یہ دونوں طریقے ان لوگوں کو سہولت پہنچانے کے لیے ہیں جو الیکشن کے دن کسی سبب موجود نہیں ہو سکتے۔
اکثر لوگ الیکشن کے دن قطار میں کھڑے ہونے سے بچنے کے لیے بھی ارلی ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔
یہ تین طریقے امریکہ میں اس لیے رائج ہیں کیونکہ اس ملک میں ووٹ کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ووٹ کاسٹ کرنے سے محروم نہ رہ جائے۔
اس الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کملا ہیرس اور رپبلکن پارٹی سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ مدمقابل ہیں۔
امریکی انتخابات کا عمل قدرے پیچیدہ ہے، لیکن اگر آپ ان انتخابات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو کم از کم یہ چند بنیادی نکات سمجھنا ضروری ہیں۔ جیسے کہ ووٹنگ کا طریقہ کار کیا ہے، الیکٹورل کالج کیا ہے، صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے اور سوئنگ سٹیٹس کیا ہیں۔
امریکہ ایک جمہوری رپبلک ملک ہے، جہاں پاپولر ووٹ یعنی عوامی ووٹ ضروری قرار دیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس رائے دہی کے اوپر الیکٹورل کالج کا فیصلہ بھی ضروری ہے۔
الیکٹورل کالج کیا ہے؟
الیکٹورل کالج کیا ہے؟ اس کی تعداد کتنی ہے؟ اور اس کی سلیکشن کس طرح ہوتی ہے؟ اس کو یوں سمجھیں کہ جس طرح پاکستان اور دنیا بھر میں عموماً سربراہان کا انتخاب اکثریتی عوامی ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔
اس کے برعکس امریکہ میں صدر کے انتخاب کے لیے اکثریتی ووٹ کی شرط لازم نہیں۔ صدر کے منتخب ہونے کے لیے امریکہ کے 538 الیکٹورل کالج میں سے 270 الیکٹورل ووٹ ہی ایک امیدوار کو اوول آفس میں پہنچا سکتے ہیں۔
فی الحال اگر الیکٹورل کالج کو دیکھا جائے تو رپبلکن ریاستوں کے تناسب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس اس وقت 235 الیکٹورل ووٹ ہیں۔
اسی طرح روایتی طور پر ڈیموکریٹ ریاستوں کے تناسب سے کملا ہیرس کے پاس 226 الیکٹورل ووٹس ہیں۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سوئنگ سٹیٹس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اگر کملا ہیرس پینسلوینیا، مشی گن، جارجیا اور وسکانسن جیت جاتی ہیں تو وہ صدر بن جائیں گی۔
لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ پینسلوینیا کے ساتھ جارجیا جیت گئے تو ان کی صدارتی کرسی پکی ہو جائے گی۔
ان تمام سوئنگ ریاستوں میں سب سے زیادہ الیکٹورل ووٹس 17 پینسلوینیا کے ہیں۔
الیکٹورل کالج کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں ایک ریاست سے کانگریس کی نشستوں اور سینیٹ کی دو نشستوں کو ملا کر اسی تعداد میں الیکٹرز کا انتخاب کرتی ہیں۔
جیسے کہ آبادی کے لحاظ سے ورجینیا کی ریاست میں 11 کانگریس کی نشستیں ہیں، ان کے ساتھ سینیٹ کی دو سیٹس کو ملایا جائے تو یہ تعداد 13 بن جاتی ہے، لہٰذا ورجینیا کے 13 الیکٹورل ووٹس ہوں گے۔
اسی طرح تمام ریاستوں سے منتخب ہونے والے کانگرس اراکین کا شمار 435 ہے، اور اسی فارمولے کے تحت 50 ریاستوں سے 100 سینیٹر بھی ہیں۔
یہ تعداد کل ملا کر 535 بنتی ہے، یوں امریکہ میں 538 الیکٹورل کالج ووٹس ترتیب دیے گئے ہیں۔
سوئنگ ریاستیں کیا ہیں؟
یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں کسی سیاسی جماعت کا رجسٹرڈ ووٹ کم ہو اور ووٹرز نے کسی بھی امیدوار کو نہ چنا ہو۔
عمومی طور پر سوئنگ ریاستوں میں الیکٹورل کالج ووٹ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ان ریاستوں کو صدارتی امیدوار زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
ان میں وسکانسن، جارجیا، ایریزونا، شمالی کیرولائنا، پینسلوینیا، مشی گن اور نیواڈا شامل ہیں۔
پھر ان میں بھی بعض ریاستیں الیکٹورل کالج ووٹس کی وجہ سے مزید اہم ہیں جن کو بیٹل گراؤنڈ سٹیٹس کہا جاتا ہے اور جب بیٹل گراؤنڈ سٹیٹس کی بات ہو تو پینسلوینیا کے بغیر الیکشن جیتنا ناممکن ہے۔
2020 میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پینسلوینیا جیت کر انتخاب جیتا تھا اور 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو پینسولینیا میں ہی شکست دی تھی۔
امریکی انتخابات کے دلچسپ طریقہ کار کی وجہ سے تمام پولز، سروے اور عوامی مقبولیت بھی کسی امیدوار کی جیت کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں بتا سکتے۔