وفاقی وزیر نجکاری علیم خان نے اتوار کو صوبائی حکومتوں کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) چلانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ اپنی پیشکش دیں تو اس معاملے کو کابینہ میں لے جایا جاسکتا ہے۔
اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں 31 اکتوبر کو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے ہونے والی تقریب میں صرف بلیو ورلڈ سٹی کے کنسورشیم کی جانب سے 10 ارب روپے کی بولی لگائی گئی تھی جبکہ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی کم ازکم قیمت 85 ارب تین کروڑ روپے مقرر کی تھی۔ حکومت کی جانب سے سفارش کردہ بولی سے کم آنے کی صورت میں یہ معاملہ دوبارہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے پاس چلا گیا ہے، جس پر غور کے بعد سرکاری قیمت کم کرنے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔
بعدازاں خیبرپختونخوا حکومت نے یکم نومبر کو پی آئی اے کی نیلامی میں دلچسپی کے حوالے سے وفاقی حکومت کو باضابطہ طور پر خط لکھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی قومی ایئرلائن خریدنے میں دلچسپی کی رپورٹس سامنے آئیں۔
آج لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر نجکاری علیم خان سے اس حوالے سے سوال کیا گیا، جس پر انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت اچھی بات ہے اگر مختلف صوبوں کی حکومتیں قومی ایئرلائن کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہیں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ ایسا کرنے میں مجھے بہت خوشی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کسی صوبے کی نہیں پوری قوم کی ایئرلائن ہے تاہم پنچاب، خیبر پختونخوا، سندھ یا بلوچستان پی آئی اے لینا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، اس کو پروفیشنل انداز میں چلائیں۔ میں صوبائی حکومتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ایئر لائن کا انتظام چلا کر دنیا بھر سے پروفیشنل افراد منگوائیں، ذاتی مفادات سائیڈ پر رکھیں تو یہ منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔‘
وزیر نجکاری نے مزید کہا کہ ’صوبائی حکومتیں مشترکہ طور پر قومی ایئرلائن کا انتظام سنبھال سکتی ہیں، وہ اپنی پیشکش دیں تو میں اس معاملے کو کابینہ میں لے جا سکتا ہوں۔‘
’میرا کام پی آئی اے چلانا نہیں، فروخت کرنا ہے‘
اس سے قبل وزیر نجکاری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کا کام پی آئی اے کو فروخت کرنا ہے، اسے چلانا ان کی ذمہ داری نہیں۔
بقول علیم خان: ’میری ذمہ داری پی آئی اے کو ٹھیک کرنا نہیں بلکہ اسے فروخت کرنا ہے، اگر مجھے قومی ایئرلائن کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی تو ہی مجھ سے حساب لیا جانا چاہیے تھا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مجھے نہ بتایا جائے کہ کیسے کام کرنا ہے کیوں کہ مجھے ان سب سے بہتر کام کرنا آتا ہے اور اگر قومی ایئرلائن کی فروخت میں کوئی کوتاہی ہوگی تو اس کی ذمہ داری میں اٹھاؤں گا، میں صرف نجکاری کے قانون پر عمل درآمد کرسکتا ہوں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔‘
علیم خان نے کہا کہ ان پاس قومی ایئرلائن کی نجکاری کرنے کے فریم ورک میں تبدیلی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے کیوں کہ پی آئی اے کا فریم ورک پہلے بن چکا تھا، جس میں 600 ارب روپے ہولڈ کیے جا چکے تھے اور اسی کے ساتھ اس کی نجکاری کا عمل شروع ہوچکا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پی آئی اے کی نجکاری کا عمل میرے وزیر بننے سے مہینوں پہلے شروع ہو چکا تھا، اس لیے جو عمل پہلے ہی شروع ہوچکا تھا، اسے میں تبدیل نہیں کرسکتا تھا۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق: ’میرے پاس نجکاری کا جو طے کردہ طریقہ کار ہے اس کے تحت ہی میں نجکاری کا عمل سر انجام دے سکتا ہوں۔‘
علیم خان نے کہا کہ ’حال ہی میں چھ بولی دہندگان نے پی آئی اے خریدنے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن بعد میں کچھ شرائط کے باعث وہ الگ ہو گئیں اور صرف ایک کنسورشیم نے بولی دی جو ناقابل قبول حد تک کم تھی۔ بولی دینے والے کی تمام شرائط نہیں مان سکتے تھے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جو محکمے میرے پاس ہیں ان کی ایک ایک پائی کا حساب دینے کو تیار ہوں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میں نے پی آئی اے کا یہ حال نہیں کیا اور پی آئی اے کے ساتھ جو ہوا ہے اس میں میرا کوئی کردار نہیں، ماضی میں ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اس لیے وہ تمام لوگ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور قومی ایئرلائن کا بیڑا غرق کرنے میں اپنا حصہ تلاش کریں۔‘
وزیر نجکاری کا کہنا تھا کہ پی آئی اے ہمارا قومی اثاثہ ہے، اس کو کوڑیوں کے بھاؤ نہیں بیچا جا سکتا، یہ ماضی میں دنیا کی بہترین ایئر لائن تھی اور اسے اب بھی منافع بخش کاروبار بنایا جا سکتا ہے۔