کراچی کے اورنگی ٹاؤن کی بے نظیر کالونی کے رہائشی، ریٹائرڈ سرکاری ملازم 62 سالہ محمد جمال خان شاہد کا گھر حکام نے یہ کہہ کر مسمار کر دیا تھا کہ شہر سے بارش کا پانی سمندر تک لے جانے والے نالوں کے کناروں پر موجود کچی آبادیوں کے متعدد گھروں کی طرح ان کا گھر بھی نالے کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈال کر شہری سیلاب کا سبب بن رہا تھا۔
محمد جمال خان شاہد کے مطابق انہوں نے 23 سال قبل زمین خرید کر اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی لگا کر یہ گھر تعمیر کیا۔ مگر اتنے سال بعد اچانک حکام نے ان کے گھر کو تجاوزات قرار دے کر گرا دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد جمال خان شاہد نے کہا: ’میرا گھر نالے سے دور تھا، مگر اس کے باوجود توڑ دیا گیا۔ مجھے متبادل گھر کے لیے دو سال کا کرایہ 90 ہزار دیا گیا۔‘
’مگر اس کے بعد یہ رقم بند کر دی گئی۔ اب میرے بچے کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں۔ پنشن کی رقم سے عام ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں، کرایہ کہاں سے دوں؟‘
محمد جمال خان شاہد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں گھر بنا کر دیا جائے۔
2020 میں مون سون کی بارشوں کے باعث کراچی شہری سیلاب یا اربن فلڈنگ سے شدید متاثر ہوا۔
سیلاب سے نہ صرف غریب اور کچی آبادیاں متاثر ہوئیں بلکہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور کلفٹن جیسے انتہائی پوش علاقے بھی زیرِ آب آ گئے۔
حکام نے شہر سے بارش کا پانی سمندر لے جانے والے محمود آباد نالے، اورنگی نالے سمیت 500 سے زائد چھوٹے بڑے نالوں کے کناروں پر آباد کچی آبادیوں کے گھروں کو سیلاب کا ذمہ دار قرار دیا۔
شہر کے چند بڑے نالوں کو چوڑا اور پکا کرنے کے لیے حکام نے عالمی اداروں کی مدد سے مختلف منصوبے بنائے اور اعلان کیا کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے نالوں کے کناروں پر آباد کچی آبادیوں کے 10 ہزار سے زائد گھروں کو مسمار کیا جائے گا۔ ان منصوبوں کے تحت گجر نالے اور اورنگی نالے پر سیکڑوں گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔
متاثرہ خاندانوں نے گھروں کی مسماری پر شدید احتجاج کرتے ہوئے عدالتوں کا رخ کیا۔
عدالتوں کی جانب سے گھروں کی مسماری روکنے، متاثرہ خاندانوں کو متبادل زمین دینے کے احکامات اور شہر کے مختلف اربن پلانرز، آرکیٹیکٹس اور غیر سرکاری تنظیموں کی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد حکام نے عارضی طور پر گھروں کی مسماری روک دی۔
ماہرین اور غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹس میں ایک کراچی کے غیر سرکاری ادارے ٹیکنیکل ٹریننگ ریسورس سینٹر (ٹی ٹی آر سی) کے سربراہ محمد سراج الدین کی رپورٹ بھی شامل تھی۔
سراج الدین 1994 سے کچی آبادیوں کے مکینوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ کراچی کی اربن پلانر اور آرکیٹیکٹ پروین رحمان کی تنظیم اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی جانب سے 1997 میں ٹی ٹی آر سی کی بنیاد رکھی گئی۔
ٹی ٹی آر سی کچی آبادیوں کے مکینوں کو اربن پلاننگ کے تحت عمارت سازی، نکاسی آب اور گھروں کو سیلاب و دیگر موسمیاتی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے گذشتہ 27 سالوں سے تربیت فراہم کر رہا ہے۔
سراج الدین نے ٹی ٹی آر سی کے پلیٹ فارم سے کچی آبادیوں کے مسائل پر متعدد رپورٹس تیار کی ہیں۔
حکام کی جانب سے کراچی میں نالوں کی مسماری کے بعد سراج الدین نے محمود آباد نالے سمیت مختلف نالوں کی میپنگ کی۔ اس میپنگ کے لیے انہوں نے اور ان کی ٹیم نے نالوں کا پیدل سروے کیا۔ جیو میپنگ، تصاویر لینے، نالوں کی چوڑائی اور گہرائی چیک کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ نالے مختلف جگہوں پر مکمل طور پر مٹی، عمارتوں کے ملبے اور کوڑے سے بھرے ہوئے ہیں، جو پانی کے بہاؤ کو متاثر کر رہے ہیں۔
ان کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ’برساتی نالے تاریخی طور پر قدرتی گزرگاہیں ہیں جو بارش کے پانی کو سمندر تک لے جاتی ہیں، مگر ان نالوں میں مٹی، کوڑا اور دیگر اشیا کی موجودگی کے باعث پانی سمندر تک جانے کے بجائے شہری سیلاب کا سبب بن رہا ہے۔ شہری سیلاب سے بچنے کے لیے کناروں پر بنے گھروں کو مسمار کر کے نالوں کو چوڑا کرنے کے بجائے ان کی صفائی کر کے کھول دیا جائے تو عالمی اداروں سے بھاری قرضے لینے اور ہزاروں خاندانوں کو بے گھر ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الدین نے کہا ’کراچی میں چھوٹے بڑے 500 سے زائد برساتی نالے ہیں، جو شہر کے دور دراز علاقوں سے بارش کا پانی لیاری ندی اور ملیر ندی تک لاتے ہیں۔ ان ندیوں سے پانی سمندر میں چلا جاتا ہے، مگر گذشتہ چند سالوں سے کراچی میں تواتر سے ہونے والے شہری سیلاب یا اربن فلڈنگ کے بعد عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری قرضے لے کر ان نالوں کو چوڑا کرنے کے منصوبے شروع کیے گئے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے نالوں کے دونوں اطراف موجود سیکڑوں گھروں کو گرا دیا گیا، جس کے باعث ہزاروں شہری بے گھر ہو گئے۔‘
سراج الدین کے مطابق، شہر میں نالوں کے کناروں پر موجود گھروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کے بعد ان کی تنظیم نے نالوں کی میپنگ کا فیصلہ کیا۔ بقول سراج الدین ’اب تک شہر کے تین نالوں پر تجاوزات کے نام پر سیکڑوں گھروں کو یا تو گرا دیا گیا ہے یا ان کو گرانے کا نوٹس دیا گیا ہے۔ ان میں گجر نالا، محمود آباد نالا اور اورنگی نالا شامل ہیں۔ ہم نے ان تینوں نالوں کا سروے کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نالوں کے سروے اور مقامی آبادیوں کے رہائشیوں سے گفتگو کرنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ بارش کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ نالوں کے کنارے موجود آبادیاں نہیں ہیں۔ یہ نالے تاریخی طور پر بارش کا پانی سمندر لے جاتے ہیں، مگر ہماری میپنگ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ گھروں کو گرا کر نالوں کو چوڑا کرنے کے بجائے ان نالوں میں بھری مٹی، کوڑا اور نالوں کے اندر موجود پانی اور گیس کے پائپوں کو ہٹانے سے شہر کو اربن فلڈنگ سے بچایا جا سکتا ہے۔‘
’صرف نالوں کی صفائی کرنے سے ہزاروں خاندانوں کو بے گھر ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں روپے کے قرضے لینے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔‘
سراج الدین کے مطابق مختلف یوٹیلٹی سروسز، جیسے گیس اور پانی کی لائنیں بھی ان نالوں سے گزاری گئی ہیں۔ جب نالے میں بہہ کر آنے والا کچرا ان پائپوں تک پہنچتا ہے تو وہاں کوڑے کا بڑا ڈھیر بن جاتا ہے اور نالے کا پانی کا بہاؤ مکمل طور پر رک جاتا ہے۔ ’نالوں کے بہاؤ کو بہتر رکھنے کے لیے نالوں سے پائپ گزارنے کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔‘
کچی آبادیوں کے مکینوں کے گھروں کی مسماری کے معاملے پر جب کراچی میں تجاوزات ہٹانے والے شہری حکومت کے اینٹی انکروچمنٹ شعبے سے رابطہ کیا گیا تو ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب بھی کوئی میگا پروجیکٹ بنتا ہے تو اس کا میگا پلان بنایا جاتا ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز تجاوزات ہے، اسے ہٹا دیا جائے۔ ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ نالوں والے معاملے میں پہلے ہمیں کہا گیا کہ گھروں کو مسمار کریں، تو ہم نے گھر گرائے۔ بعد میں کہا گیا، گھر گرانا بند کریں، تو ہم نے آپریشن روک دیا۔‘