آرمی ایکٹ ترامیم: کیا نظام مضبوط ہو گا؟

آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کے بعد بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے چیفس کی مدت تین سال کی بجائے پانچ سال ہو گی، آرمی چیف کی مدت میں پانچ سال اضافہ بھی کیا جاسکے گا۔

چار نومبر 2024 کو وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پیش کردہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے فوری بعد کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا (انڈپینڈنٹ اردو / قرۃ العین شیرازی)

پاکستان کی حکمران جماعتوں کی جانب سے آرمی ایکٹ ترمیم اور ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 تک بڑھانے کا بل پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کے دستخط سے قانون بن چکا ہے، تاہم یہ اقدامات ملک کی سیاست اور حکومت پر کیسے اثرانداز ہوں گے؟

چار نومبر کو ایک ہی دن میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پیش کردہ بلز ایوان زیریں میں پیش ہونے کے فوری بعد کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایوان میں شور شرابا اور احتجاج تو کیا لیکن بل روکنے میں ناکام رہیں۔ اس کے بعد ایوان بالا سے بھی کچھ ہی دیر میں یہ بل پاس ہو گئے۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کے بعد بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے چیفس کی مدت تین سال کی بجائے پانچ سال ہو گی، آرمی چیف کی مدت میں پانچ سال اضافہ بھی کیا جاسکے گا۔

حکومت کی جانب سے پاس کیے گئے بلوں کا دفاع کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے صحافیوں کو بتایا کہ ’پاکستان میں توسیع کا سلسلہ ایوب خان کے دور میں شروع ہوا۔ اس کے بعد آٹھ، نو آرمی چیفس کو توسیع دی گئی۔ ایوب خان، ضیا الحق، مشرف نے خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی۔ یہ سب افراد کے لیے تھیں۔ اب ہم نے اس حوالے سے قانون واضح کر دیا ہے۔‘

لیکن اس حوالے سے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تحریک اںصاف سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈرعمر ایوب نے آج منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری سے حکومتی جماعتوں نے اپنے لیے کھڈا کھود لیا ہے۔ یہ سب قوانین ان کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔‘

تجزیہ کاروں نے اس حوالے سے کہا کہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں اضافے سے حکومت نے نظام کو مضبوط کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ لیکن ایسے اقدامات سے جمہوریت یا پارلیمانی بالادستی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

آرمی ایکٹ میں ترامیم سے نظام مضبوط ہوگا؟

خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حالات میں تسلسل کی ضرورت ہے اور یہ ضروری ہے کہ جو بھی مسلح افواج کا سربراہ ہو وہ اسمبلی اور دیگر اداروں کی پانچ سالہ مدت کی طرح مناسب وقت کے لیے بہتر دفاعی منصوبہ بندیٍ کر سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سروس چیفس کی مدت میں طوالت سے نظام کو استحکام ملے گا اور یہ توقعات کے مطابق چل سکے گا۔ آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار اب بھی حکومت کے پاس ہی ہے۔‘

سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بد قسمتی سے ہماری حکمران جماعتیں جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بجائے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں اضافہ بھی ایسی ہی کوشش ہے۔ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں ایسے اقدمات سے صرف حکومت کو طول دینا چاہتی ہیں۔ جمہوریت یا پارلیمنٹ کی بالادستی کبھی کسی جماعت کی ترجیح نہیں رہی۔‘

حسن عسکری کے مطابق، ’جمہوریت کے دعوے اور نعرے بھی صرف اقتدار تک پہنچنے کے لیے ہوتے ہیں۔ جب اقتدار مل جاتا ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ عوام کی بجائے طاقتور حلقوں کو خوش رکھا جائے تاکہ انہیں کوئی ہٹا نہ سکے۔ شروع سے اب تک جو روایات چل رہی ہیں انہیں کی وجہ سے اداروں کی بجائے شخصیات مضبوط ہوتی ہیں۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’سروسز چیفس خاص طور پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے عمل پر قانون سازی کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ جس کا مقصد یہ لگتا ہے کہ حکومت فوج کے ساتھ مل کر ملک کو اگے لے کر چلے۔ صدر، وزیر اعظم اور دیگر اہم مناصب کی مدت پانچ سال ہے تو حکومت نے فوجی قیادت کی مدت بھی بڑھا دی ہے۔ البتہ جہاں تک سیاست یا جمہوریت پر اس کے اثرات کا تعلق ہے تو بظاہر تاثر یہی بن رہا ہے کہ یہ  مضبوط نہیں ہو رہیں۔ سیاست اور جمہوریت کی مضبوطی کا تعلق تو ان کی کارکردگی اور ڈیلوری سے ہے جس کا انحصار عوامی مسائل کے حل اور ملک کی معاشی صورت حال پر ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تمام حکومتی اور سروسز چیف کے عہدوں کی ایک سی مدت سے بظاہر تو یکجہتی ظاہر ہو رہی ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ یکجتی قائم رہ پائے گی؟ تو اس کا زیادہ انحصار حکومت پر ہو گا۔ اگر حکومت ایک جماعت کی ہوتی تو مسئلہ بن سکتا تھا مگر بڑی جماعتوں کی مخلوط حکومت سے رسک کم دکھائی دیتا ہے۔‘

حالیہ قانون سازی حکمران جماعتوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے؟

قومی اسمبلی سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل 2024 اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے بل کی منظوری کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے کہا کہ ’ان ترامیم کے بہت دوررس نتائج ہوں گے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف یہی قوانین استعمال ہوں گے۔

’حکومت نے آج سپریم کورٹ پروسیجراینڈ پریکٹس ایکٹ میں ترمیم کی، حکومت نے آرمی ایکٹ، ایئرفورس اور نیوی ایکٹ میں بھی ترمیم کی۔ آج قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو ٹائم نہیں دیا گیا، یہ قوانین ان کا پیچھا کریں گے، بدقسمتی سے ان بلز کے اثرات پاکستان کے لیے منفی ہوں گے، یہ قانون سازی حکومت کے لیے اچھی نہیں۔ ن لیگ اور پی پی کے خلاف یہی قوانین استعمال ہوں گے، پی پی اور ن لیگ کے پاس بھاگنے کا راستہ نہیں ہو گا۔

اس بارے میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھانا یا توسیع دینا ہر حکومت کا اپنا اختیار ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی حکومتوں نے توسیع دی۔ لیکن ذاتی طور پر کسی کی مدت ملازمت میں توسیع کا خواہاں نہیں ہوں۔‘

حسن عسکری نے کہا کہ ’حکومت نے ایک ہی دن میں بغیر کسی بحث ومباحثے کے جس طرح یہ قوانین پاس کرائے اس سے نہیں لگتا کہ یہ جمہوریت کے لیے بہتر ہوسکتے ہیں۔ حکمران جماعتیں بھول گئیں کی ان کے لیے جمہوریت اور پارلیمان کو مضبوط کرنے میں بہتری ہے۔ مگر جس طرح کے جلد بازی میں فیصلے کیے جارہے ہیں۔ ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو ایسے فیصلے ہر حکومت کے گلے پڑتے ہیں۔ جس نے بھی آرمی چیف کو توسیع دی وہ وزیر اعظم بھی مدت پوری نہ کر سکا۔‘

تجزیہ نگار سلمان غنی کے بقول، ’ بیرونی محاذ پر سرمایہ کاری کے عمل سے سہارا مل رہا ہے۔ اس میں بھی ارمی چیف کا اہم کردار ہے، اسی طرح ملک کے اندر بھی وہی سرمایہ کاروں کو اس طرف راغب کر رہے ہیں۔ تو ان کا کردار تو پہلے ہی بڑھ رہا ہے اور حکومت بھی اس کردار کو سراہتی نظر اتی ہے۔ لہذا حکومت نے مدت بڑھا کر ایک طرح سے ان کی مدت کو اپنی مدت سے مشروط کیا ہے۔‘

’سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سروسز چیفس کی مدت میں اضافہ ان کے کہنے پر کیا گیا یا یہ خود حکومتی ضرورت تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست