کملا ہیرس کے صدر بننے کے لیے ان کے انڈین آبائی گاؤں میں دعائیں

مندر کے باہر ایک بڑے بینر میں کملا کو ’اس زمین کی بیٹی‘ قرار دیا گیا ہے اور ان کی الیکشن میں کامیابی کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔

23 جولائی 2024 کو امریکی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے آبائی گاؤں تھلیسندر پورم میں ان کی تصویر آویزاں ہے (اے ایف پی/ ادریس محمد)

واشنگٹن سے 13 ہزار کلومیٹر دور انڈیا میں کملا ہیرس کے آبائی گاؤں کے رہائشی منگل کو امریکی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کی جیت کے لیے ایک مندر میں دعائیں کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کملا ہیرس کے نانا پی وی گوپالن کی پیدائش ایک صدی پہلے برٹش انڈیا کے تھلیسندر پورم نامی گاؤں میں ہوئی تھی جو اب موجودہ انڈیا کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں واقع ہے۔

مندر کے قریب ایک چھوٹا سا سٹور چلانے والے مانی کندن نے کہا: ’منگل کی صبح مندر میں ایک خصوصی دعا ہوئی۔ اگر وہ (کملا ہیریس) جیت گئیں تو پورا گاؤں جشن منائے گا۔‘

مندر میں کملا ہیرس کا نام ایک پتھر پر کندہ ہے جس پر ان کے نانا کا نام بھی موجود ہے جنہوں نے اس مندر کے لیے عطیہ دیا تھا۔

مندر کے باہر ایک بڑے بینر میں کملا کو ’اس زمین کی بیٹی‘ قرار دیا گیا ہے اور ان کی الیکشن میں کامیابی کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔

کملا کے نانا گوپالن اور ان کے خاندان نے اس گاؤں سے چند سو میل دور ساحلی شہر چنئی، جو اب تمل ناڈو کا دارالحکومت ہے، منتقل ہو گئے تھے جہاں انہوں نے ریٹائرمنٹ تک ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے طور پر کام کیا۔

اس گاؤں کو چار سال قبل اس وقت عالمی توجہ حاصل ہوئی جب اس کے مکینوں نے پٹاخے اور آتش بازی اور کھانا تقسیم کر کے امریکی نائب صدر کے طور پر ان کے حلف کا جشن منایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2020 کے انتخابات کے موقعے پر بھی کملا ہیرس کی ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت کے لیے دعا کی گئی تھی۔

کملا ہیرس اور ان کے رپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے اور منگل کو ہونے والی پولنگ کے بعد فاتح کا نام سامنے آنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔

کملا ہیرس کون ہیں؟

اگر کملا ہیرس پانچ نومبر کے انتخابات میں منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ پہلی خاتون اور پہلی سیاہ فام خاتون امریکی صدر کے طور پر نئی تاریخ رقم کر دیں گی۔

2020 میں امریکی صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس نے بطور نائب صدر منتخب ہو کر پہلے بھی نئی تاریخ رقم کی تھی۔

امریکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی سیاہ فام خاتون نے نائب صدر کی امیدار کی حیثیت سے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور جیت بھی گئیں۔

اس جیت کے بعد کملا ہیرس نے کہا تھا کہ ان کی جیت خواتین کے لیے آغاز ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’میں پہلی خاتون نائب صدر ہوں لیکن آخری نہیں۔‘

کملا ہیرس پرائمریز کی دوڑ میں جو بائیڈن کی حریف تھیں اور ان کی جانب سے اپنی سابق حریف کو بطور نائب صدر منتخب کرنا بہت سے سیاسی پنڈتوں کے لیے حیران کن فیصلہ تھا۔

سیاسی مبصرین نے اس وقت کہا تھا کہ کملا ہیرس بائیڈن کی نائب کی حیثیت سے تقریری ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے گیم چینجر ثابت ہوئی جو خواتین، نوجوانوں اور نواحی علاقوں میں رہنے والے رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کر سکتی ہیں اور ایسا ہی ہوا ہے۔

کملا ہیرس 1984 میں ڈیموکریٹک جیرالڈین فریرو اور 2008 میں رپبلکن سارہ پیلن کے بعد کسی بڑی جماعت کے لیے تیسری خاتون اور پہلی سیاہ فام خاتون نائب صدر بنی تھیں۔

کملا ہیریس کیلیفورنیا کے شہراوکلینڈ میں دو تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کا تعلق جنوبی انڈیا سے جبکہ والد کا تعلق جمیکا سے تھا۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آنے سے پہلے کملا ہیرس کی والدہ شیاملا گوپالن جنوبی انڈیا کے شہر چنئی میں رہتی تھیں۔ شاید اسی وجہ سے کملا نے امریکہ اور انڈیا کے درمیان مضبوط رشتوں کو ’اٹوٹ‘ قرار دیا جس کے بعد وہ امریکہ میں مقیم انڈین کمیونٹی کی آنکھوں کا تارا بن گئی ہیں۔

وہ اپنے انڈین ثقافتی پس منظر میں پلی بڑھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ وہ انڈیا کے دورے پر آتی جاتی رہی ہیں۔

20 اکتوبر 1964 کو پیدا ہونے والی کملا ہیرس 2016 میں پہلی بار امریکی سینیٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔ وہ 2011 سے 2017 تک کیلیفورنیا میں پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔

کملا ہیرس نے 1986 میں معروف امریکی یونیورسٹی ہوورڈ سے پولیٹیکل سائنس اور اکنامکس میں گریجویشن کیا اور پھر 1989 میں ہیسٹنگز کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔

وہ کیلیفورنیا کی اٹارنی جنرل کے طور پر منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون تھیں اور امریکی سینیٹ میں خدمات انجام دینے والی دوسری سیاہ فام خاتون ہیں جن کی جڑیں جنوبی ایشیا سے ملتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا