ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان ہونے والے گرما گرم صدارتی مباحثے میں ایک ناراض سابق صدر کی تصویر کشی کی گئی، جو اپنی حکومت کی واپسی چاہتے ہیں اور ایک امید سے بھرپور نائب صدر کی جو ایک مختلف مستقبل کے لیے بے چین ہیں۔
آخرکار، سابق صدر کے بے ترتیب جوابات، بار بار کی گئی جھوٹی باتیں اور مسلسل مداخلت نے منگل کی رات ان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔
امریکی صحافی اور سیاسی تبصرہ نگار برٹ ہیوم نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بارے میں کوئی شک نہ کریں، ٹرمپ کی رات بری تھی۔‘
جہاں کملا ہیرس نے معیشت، امیگریشن، اسقاط حمل اور دیگر امور پر واضح اور براہ راست پالیسیاں پیش کیں، سابق صدر ٹرمپ نے ان کی جانب سے جان بوجھ کر اُکسائے جانے پر ردعمل ظاہر کیا اور پرانے، بے ترتیب اور غیر مربوط تبصرے کیے۔
انہوں نے ’پناہ گزینوں کے جرائم‘ اور دیر سے ہونے والے اسقاط حمل کے بارے میں جھوٹے دعوے کیے اور افراط زر، اپنے مجرمانہ مقدمات اور 2020 کے انتخابات کے بارے میں بات کی۔ یہ تمام موضوعات وہ پریس کانفرنسوں اور ریلیوں میں اٹھاتے ہیں۔
برٹ ہیوم کا کہنا تھا: ’ہم نے بہت سی پرانی شکایات سنیں، ہم طویل عرصے سے یہ سمجھتے تھے کہ ٹرمپ نے سیکھا ہے کہ وہ سیاسی طور پر فاتح نہیں ہیں۔‘
جون میں صدر جو بائیڈن کے خلاف پہلے صدارتی مباحثے کے دوران ٹرمپ کو کامیابی حاصل ہوئی تھی، خاص طور پر اس وجہ سے کہ صدر کھردری آواز میں الجھے ہوئے جواب دے رہے تھے، جس کی وجہ سے وہ کمزور نظر آئے۔
چند ہفتوں بعد جو بائیڈن کو مجبوراً صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونا پڑا، جس سے کملا ہیرس کے ڈیموکریٹک امیدوار بننے کی راہ ہموار ہوگئی۔
لیکن اس بار ٹرمپ تیار نظر نہیں آئے۔
اے بی سی نیوز کے منتظمین نے ٹرمپ کے کئی نکات درست کیے، جیسے ایک جھوٹے دعوے کو دہرانا کہ اوہائیو کمیونٹی میں ہیٹی کے تارکین وطن ’کتے کھا رہے ہیں‘ اور ’بلیاں کھا رہے ہیں‘ اور یہ کہ ڈیموکریٹک قیادت میں کچھ ریاستیں پیدائش کے بعد اسقاط حمل کی اجازت دینا چاہتی ہیں، وہ جرائم کی شرح کے بارے میں غلط اعدادوشمار بھی دہراتے رہے۔
مباحثے کے دوران کئی مواقعے پر کملا ہیرس نے ہنس کر، آنکھیں گھما کر اور سابق صدر کے جواب دیتے وقت شدت کے ساتھ نظریں جما کر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔
مباحثے کے دوران، کملا ہیرس نے حقیر انداز میں سابق صدر کے جلسوں کے حجم کا ذکر کیا، جو ٹرمپ کے لیے حساس موضوع تھا، اور یہ اظہار خیال کیا کہ لوگ ’تھکن اور بوریت‘ کی وجہ سے جلدی جا رہے ہیں۔
سابق صدر نے فوری طور پر اپنے وقت کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ریلیاں کملا ہیرس سے بڑی اور بہتر تھیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’لوگ میری ریلیاں چھوڑ کر نہیں جاتے، ہمارے ریلیاں سیاست کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلیاں ہیں، سب سے ناقابل یقین ریلیاں ہیں۔‘
سیاسی تبصرہ نگار اور ٹیلی وژن میزبان جوئے ریڈ نے ایم ایس این بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ اس بحث میں ’تباہ‘ ہو گئے کیونکہ ’وہ اپنا دماغ قابو نہیں رکھ سکتے اور آپ امریکہ کا ایسا صدر نہیں چاہتے جو اپنا دماغ کنٹرول نہ کر سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب کملا ہیرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مجرمانہ مقدمات کا ذکر کیا تو وہ ایک بار پھر چال میں پھنس گئے اور ایک لمبی تقریر شروع کر دی، جس میں انہوں نے بائیڈن انتظامیہ اور ہیرس پر الزام لگایا کہ وہ ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
نائب صدر نے رپبلکنز کا ذکر کیا، جنہوں نے ان کی انتخابی مہم کی حمایت کی تھی، ٹرمپ نے ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ’ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو برطرف کیا تھا۔‘
بحث کے بعد سابق صدر کے اتحادیوں نے فوری طور پر سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور کہا کہ اے بی سی نیوز کے منتظمین نے ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا۔
فوکس نیوز کے اینکر شان ہینیٹی نے مباحثے کے بعد کہا: ’میرے خیال میں آج رات ملک کی سب سے بڑی ناکامی اے بی سی نیوز تھا۔‘
سینیٹر مارکو روبیو نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ہاں یہ شرمندگی کی بات ہے۔‘
لیکن قدامت پسند ٹاک ریڈیو میزبان ایرک ایرکسن نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
ایرک ایرکسن نے ایکس پرلکھا: ’ٹرمپ بحث ہار گئے اور منتظمین کے حوالے سے شکایت کرنا اس حقیقت کو نہیں بدلے گا۔ وہ ان (منتظمین) کے رویے کی وجہ سے نہیں ہارے، وہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے ہار گئے کیوں کہ مباحثے میں گفتگو ٹرمپ کر رہے تھے، منتظمین نہیں۔‘
رات کے آخر میں ٹرمپ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ ان کی اب تک کی ’سب سے بہترین بحث‘ تھی اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ کملا ہیرس ایک اور بحث چاہتی ہیں ’کیونکہ انہیں آج رات شکست ہوئی۔‘
© The Independent