امریکی محکمہ انصاف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی ایرانی سازش کا انکشاف کرتے ہوئے ایک شخص پر فرد جرم عائد کی ہے جبکہ ایران نے ان الزامات کو ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی(اے ایف پی) کے مطابق امریکی استغاثہ کی جانب سے مبینہ منصوبے کے حوالے سے الزامات کے اعلان کے بعد، ترجمان اسماعیل بغائی نے ایک بیان میں کہا کہ وزارتِ خارجہ ’ان الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ ایران سابق یا موجودہ امریکی حکام کو نشانہ بنانے کی کسی قاتلانہ کوشش میں ملوث ہے۔‘
امریکی محکمہ انصاف نے جمعے کو سابق امریکی صدر ٹرمپ کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے ایرانی منصوبے کا انکشاف کرتے ہوئے ایک شخص پر فرد جرم عائد کی۔
مذکورہ شخص کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے ہونے والے انتخابات سے قبل ایک سرکاری اہلکار نے اسے رپبلکن پارٹی کے نومنتخب صدر کے قتل کی منصوبہ بندی کا کام سونپا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تفتیش کاروں کو ٹرمپ کو قتل کرنے کے منصوبے کے بارے میں ایرانی حکومت کے ایک مبینہ اثاثے فرہاد شاکری سے معلوم ہوا، جس نے ڈکیتی کے الزام میں امریکی جیلوں میں وقت گزارا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس کے پاس جرائم پیشہ ساتھیوں کا ایک نیٹ ورک ہے جسے تہران نے نگرانی اور قتل کے منصوبوں کے لیے بھرتی کر رکھا ہے۔
مین ہٹن کی وفاقی عدالت میں دائر فوج داری شکایت کے مطابق شاکری نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ گذشتہ ستمبر میں ایران کے نیم فوجی پاسداران انقلاب کے ایک شخص نے انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ دیگر کام چھوڑ دیں اور سات دن کے اندر ٹرمپ کی نگرانی اور بالآخر انہیں قتل کرنے کا منصوبہ تیار کریں۔
شاکری نے عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ ’ہم پہلے ہی بہت پیسہ خرچ کر چکے ہیں‘ اور یہ کہ ’پیسہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
درخواست کے مطابق شاکری نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ عہدیدار نے ان سے کہا کہ اگر وہ سات دن میں کوئی منصوبہ تیار نہیں کر سکے تو یہ منصوبہ انتخابات کے بعد تک روک دیا جائے گا ،کیونکہ عہدیدار کا خیال تھا کہ ٹرمپ ہار جائیں گے اور اس وقت انہیں قتل کرنا آسان ہو جائے گا۔
شاکری مفرور اور اب بھی ایران میں ہیں۔ دو دیگر افراد کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ شاکری نے انہیں ایرانی-امریکی صحافی مسیح علی نژاد کا پیچھا اور قتل کرنے کے لیے بھرتی کیا تھا۔
مسیح علی نژاد کو قتل کرنے کے لیے ایران نے معاوضے کے بدلے قتل کے کئی منصوبے بنائے، جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ناکام بنایا گیا۔
برلن سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے علی نژاد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ’میں بہت حیران ہوں، یہ میرے خلاف تیسری کوشش ہے اور یہ حیران کن ہے۔‘
وہ دیوار برلن گرنے کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کرنے والی تھیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا: میں اس لیے امریکہ آئی کہ آئین میں دیا گیا اپنا آزادی اظہار رائے کا حق استعمال کر سکوں - میں مرنا نہیں چاہتی، میں ظلم کے خلاف لڑنا چاہتی ہوں اور مجھے محفوظ ہونے کا حق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میری حفاظت کرنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکریہ لیکن میں امریکی حکومت پر زور دیتی ہوں کہ وہ امریکہ کی قومی سلامتی کا تحفظ کرے۔‘
دو دیگر مدعا علیہان کے وکلا، جن کی شناخت جوناتھن لوڈ ہولٹ اور کارلائل ریویرا کے طور پر ہوئی ہے، نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کے لیے پیغامات کا جواب نہیں دیا۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ایک افغان شہری شاکری، جو بچپن میں امریکہ ہجرت کر گئے تھے، بعد میں ڈکیتی کے الزام میں 14 سال جیل میں گزارنے کے بعد ملک بدر کر دیے گئے، نے تفتیش کاروں کو یہ بھی بتایا کہ اس کے ساتھ رابطے میں پاسداران انقلاب کے رکن نے اسے نیویارک میں رہنے والے دو یہودی امریکیوں اور سری لنکا میں اسرائیلی سیاحوں کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔
کریمنل شکایت میں کہا گیا ہے کہ شاکری نے ایران میں ایف بی آئی ایجنٹوں کے ساتھ ریکارڈ شدہ ٹیلی فون انٹرویوز کے سلسلے میں مبینہ سازشوں کی کچھ تفصیلات کا انکشاف کیا۔
شکایت کے مطابق اس نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس کے تعاون کی بیان کی گئی وجہ یہ تھی کہ وہ امریکہ میں جیل میں قید اپنے ایک ساتھی کی سزا میں کمی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اگرچہ حکام نے یہ طے کیا کہ اس نے جو معلومات فراہم کی تھیں ان میں سے کچھ جھوٹی تھیں، لیکن اس کے ٹرمپ کو قتل کرنے کے منصوبے اور ایران کی بڑی رقم ادا کرنے پر آمادگی کے بارے میں دیے گئے بیانات درست ثابت ہوئے۔
یہ سازش، جس کا انکشاف ٹرمپ کی ڈیموکریٹ کملا ہیریس کی شکست کے چند دن بعد ہوا، اس بات کی عکاسی کرتا ہے جسے وفاقی حکام نے ایران کی جانب سے امریکی سرزمین پر ٹرمپ سمیت امریکی حکومت کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی جاری کوششوں کے طور پر بیان کیا ہے
گذشتہ موسم گرما میں محکمہ انصاف نے ایک پاکستانی شخص پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے ایران کے ساتھ تعلقات ہیں اور اس نے امریکی حکام کو نشانہ بنانے کے لیے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اٹارنی جنرل میریک گارلینڈ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ’دنیا میں بہت کم عناصر ایسے ہیں جو ایران کی طرح امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔‘
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا کہ یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ ’ایران امریکی شہریوں بشمول ٹرمپ، دیگر حکومتی رہنماؤں اور مخالفین کو نشانہ بنانے کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے جو تہران کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔‘
ایرانی کارندوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ساتھیوں کی ای میلز کو ہیک اور لیک کرنے کا آپریشن بھی کیا جس کے بارے میں حکام کا خیال ہے کہ یہ صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوشش تھی۔
انٹیلی جنس حکام کے بقول ایران نے ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کی مخالفت کی، کیونکہ اسے لگتا تھا کہ ان کئ آنے سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا امکان زیادہ ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کر دیا تھا، پابندیاں دوبارہ عائد کیں اور ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا حکم دیا، جو ایک ایسا کام تھا جس نے ایران کے رہنماؤں کو انتقام کی قسم کھانے پر مجبور کیا۔
ٹرمپ کے ترجمان سٹیون چیونگ کا کہنا تھا کہ نومنتخب صدر کو قتل کی سازش کا علم ہے اور انہیں’ وائٹ ہاؤس واپس آنے اور دنیا بھر میں امن بحال کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘