قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ قومی ایئرلائن پی آئی اے کی یورپ میں پروازوں پر عائد پابندی چند ماہ میں اٹھا لی جائے گی۔
پی آئی اے کی یورپ بھر میں پروازوں پر جولائی 2020 کے بعد سے پابندی عائد ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کے اجلاس میں سیکریٹری ایوی ایشن احسن علی منگی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ برطانوی ایوی ایشن ادارے ’ایاسا کے ساتھ ایک سال میں تین چار رابطے ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں اب ہم ریگولیٹری رجیم سے مطمئن ہیں۔ نومبر میں سیفٹی کمیٹی کی میٹنگ ہے، اس میں کوئی فیصلہ آ جانا چاہیے، پی آئی اے پر پابندی اگلے چند مہینوں میں اٹھ جائے گی۔‘
یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے گذشتہ چار سالوں سے پی آئی اے کی پروازوں پر اپنے خطے میں پابندی عائد کر رکھی ہے جو تاحال قائم ہے۔
پہلے پہل یکم جولائی 2020 کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو چھ ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کیا تھا اور آٹھ اپریل 2021 کو یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے پر سفری پابندیوں میں غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی تھی۔
اس سے قبل رواں برس ستمبر میں سینیٹ کی کمیٹی میں بتایا گیا تھا کہ ’پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی یورپ جانے والی پروازوں پر پابندی صرف پائلٹوں کے لائسنس سکینڈل کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ ایک سال قبل پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (پی سی اے اے) کو پیشگی حفاظتی وارننگز بھی دی گئی تھیں۔‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس نوابزادہ افتخار احمد بابر کی زیر صدارت بدھ کے روز ہوا۔
ایجنڈے میں قومی ایئرلائن پی آئی اے کے معاملے پر بات چیت کی گئی جبکہ ہوائی اڈوں کے معاملے کو موخر کیا گیا تھا کہ اس معاملے پر وزیر ایوی ایشن خود کمیٹی کو بریفنگ دیں گے۔
رکن کمیٹی منزہ حسن نے معاملہ اٹھایا کہ ’پی آئی اے کے بحرین اور برمنگھم میں دو افسران پر الزامات ہیں۔‘
سی ای او پی آئی اے محمد عامر حیات نے انہیں جواب دیا کہ ’اویس بحرین میں کنٹری مینیجر ہیں، ڈیڑھ مہینے میں کیس سیٹل کیا اور اویس کو واپس لے آئے۔‘
ڈاکٹر درشن نے پی آئی اے ملازمین کی شکایات کا ذکر کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ دبئی میں ایک پی آئی اے ملازم پر خاتون سے بدتمیزی کا الزام لگا تھا، اس کی کوئی انکوائری ہوئی؟‘
سی ای او پی آئی اے نے جواباً کہا کہ ’جیسے جیسے تفصیلات آئیں گی ایکشن لیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہرین رزاق بھٹو نے پی آئی اے کے آڈٹ پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ 10 سال سے پی آئی اے کا آڈٹ نہیں ہوا، وہ ذمہ داری کس پر فکس ہوئی؟
منزہ حسن نے کہا کہ ’کیا کسی کو سزا ہوئی، کوئی ایکشن لیا گیا ہے؟‘ رکن کمیٹی نے رمیش لال نے پوچھا کہ 10 سال آڈٹ نہ ہونے کی وجہ کیا تھی؟‘
سیکریٹری ایوی ایشن احسن علی منگی نے اراکین کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ’آپ کی بات صحیح ہے کہ پہلے 10 سال آڈٹ نہیں ہوا۔ جبکہ 2020 کے بعد دو بار آڈٹ کرایا ہے۔‘
منزہ حسن نے استفسار کیا کہ ’ان 10 سالوں میں پی آئی اے کا کوئی کریش تو نہیں ہوا؟‘ سیکرٹری ایوی ایشن نے جواب دیا کہ ’10 سالوں میں چار کریش ہوئے ہیں۔‘
کمیٹی نے10 سال آڈٹ نہ کرانے کے معاملے کا پی آئی اے سے تفصیلی جواب طلب کر لیا۔
پی آئی اے کے پاس اب کتنے جہاز ہیں؟
سی ای او پی آئی اے محمد عامر حیات نے کمیٹی کو بتایا کہ ’اس وقت پی آئی اے کے پاس پانچ فعال 777 جہاز ہیں، حج سے پہلے سات ہو جائیں گے، کرونا کے وقت ہمارے پاس 12، 777 جہاز تھے، باقی جہاز ریکور ایبل نہیں رہے، ہمارے 10 جہاز 320 اور دو اے ٹی آرز ہیں۔‘
رکن کمیٹی مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ ’یہاں بیٹھے بیورو کریٹس ایک بار اے ٹی آر میں اسلام آباد سے کراچی جائیں، نجی ایئر لائنز کو بھی چھوٹے روٹس پر فلائٹس چلانے کا پابند بنایا جائے، بیرون ملک سے میت لانے کے لیے کوئی مفت سہولت فراہم کی جائے، پی آئی اے کی فلائٹ کینسل ہوئی، فلائی جناح نے 75 ہزار روپے اسلام آباد سے کراچی کا ٹکٹ دیا۔‘
رکن کمیٹی رمیش لال کی جانب سے پی آئی اے میں مافیا کا تذکرہ کیا گیا تو سی ای او پی آئی اے نے ان سے پوچھا کہ ’مافیا سے کیا مراد ہے؟‘
جس پر رمیش لال نے کہا کہ10 سال سے تو آپ نے آڈٹ نہیں کرایا، سابق وزیر سرور خان نے بیڑہ غرق کیا، پی آئی اے کو دنیا میں بدنام کیا، جب تک پی آئی اے میں کالی بھیڑیں بیٹھی ہیں، پی آئی اے ترقی نہیں کر سکتا۔‘
مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ ’اوورسیز مسافروں کے لیے کوئی فعال انفارمیشن ڈیسک ہونا چاہیے۔‘
سی اے اے حکام نے انہیں جواب دیا کہ ’آپ کا نکتہ اہم ہے، ہم اسے نوٹ کریں گے، آپ کی تنقید ہماری بہتری کے لیے ہے۔‘
اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے نام کی تبدیلی
چیئرمین کمیٹی نوابزادہ افتخار احمد بابر نے اسلام آباد ایئرپورٹ کے نام پر اعتراض کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں اسمبلی میں ایک قرارداد پاس ہوئی تھی، آج تک اس پر عمل نہیں کیا گیا، یہ اسلام آباد ایئرپورٹ کا نام شہید بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھنے کی قرارداد تھی۔‘
سیکریٹری ایوی ایشن نے جواب دیا کہ ’نام کابینہ ڈویژن کے ذریعے تبدیل ہوتا ہے۔‘
رکن کمیٹی مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ ’وزیراعظم کو خط لکھنا چاہیے کہ کمیٹی اور اسمبلی کی قرارداد پر فورا عمل ہونا چاہیے۔‘
جبکہ پی آئی اے جعلی لائسنسوں والے معاملے پر کمیٹی نے ان کیمرا بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا۔