پی آئی اے کے سات ہزار ملازمین کو ساتھ لے کر چلیں گے: ممکنہ خریدار کمپنی

پی آئی اے خریدنے کے لیے بولی دینے والی واحد کمپنی بلیو ورلڈ سٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ ایئر لائن کو چلانے کے لیے ا ن کے پاس ایک قابل عمل بزنس پلان ہے۔

21 مارچ، 2013 کو جنوبی کوریا کے انچیون ایئر پورٹ پر موجود پی آئی اے کا طیارہ (پی آئی اے/ فیس بک)

قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے بولی آج 31 اکتوبر 2024 کو ہونے جا رہی ہے، جس میں حصہ لینے کے لیے ابتدائی رقم جمع کروانے والی واحد کمپنی بلیو ورلڈ سٹی کے چیئرمین سعد نذیر کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ سات ہزار ملازمین کو ساتھ لے کر چلا جائے۔

سعد نذیر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا  کہ ’ہم پی آئی اے کے سات ہزار ملازمین کو لے کر چلیں گے، جس طرح انڈیا میں ریلائنس گروپ نے سو جہاز اپنی ایئر لائن میں شامل کیے ہیں اسی طرح پی آئی اے بھی اپنی گنجائش کے مطابق پچاس سے سو جہاز اپنی فلیٹ میں شامل کرے گی اور ایئر لائن کو چلائے گی۔‘

چیئرمین بلیو ورلڈ سٹی سعد نذیر نے بدھ کی شب نجی ٹی وی ’سنو‘ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان عوامل کا ذکر کیا جن کی وجہ سے ان کے خیال میں ابتدائی طور پر پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی لینے والی کمپنیاں بولی میں حصہ لینے سے پیچھے ہٹ گئیں، اس کے ساتھ ہی بولی جیتنے کی صورت میں انہوں نے ادارے کو چلانے کے لیے اپنا لائحہ عمل بھی بتایا۔

حکومت کئی برسوں سے پی آئی اے کی نجی کاری کی خواہاں رہی ہے  کئی مرتبہ اس عمل میں تاخیر کے بعد اب اس بارے میں عملی پیش رفت ہوئی ہے اور بولی کے لیے نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر چھ بولی دہندگان کو اہل قرار دیا تھا۔

ان کمپنیوں میں فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی سربراہی میں ایک کنسورشیم، ایئر بلیو لمیٹڈ، پاک ایتھنول (پرائیویٹ) لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ اور بلیو ورلڈ سٹی شامل ہیں، تاہم بولی میں شمولیت کے لیے صرف بلیو ورلڈ سٹی نے ہی ابتدائی رقم جمع کروائی ہے۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین بلیو ورلڈ سٹی سعد نذیر کا کہنا تھا کہ حکومت نے پی آئی اے کے حصص کی فروخت کے لیے جو شرائط رکھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ادارے کے سات ہزار ملازمین کو تین برس تک نہیں نکالا جائے گا۔

اس کے ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی گئی کہ 60 فی صد حصص فروخت کیے جائیں گے جب کہ 40 فی صد کی ملکیت حکومت کے پاس رہے گی۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ بولی دہندگان کا کہنا تھا کہ حکومت سو فی صد حصص فروخت کرے کیونکہ ہم حکومتی مداخلت کے ساتھ کام نہیں کر پائیں گے جب کہ ملازمین کو برخاست نہ کرنے کی شرط پر بھی بولی دہندگان کو تحفظات ہیں۔

سعد نذیر نے بولی دہندگان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’پی آئی اے کے اس وقت سات ہزار ملازمین ہیں جب کہ موجودہ حالات میں ادارے کو چلانے کے لیے اڑھائی ہزار سے تین ہزار تک ملازمین کی ضرورت ہے۔

’سو قریباً پانچ ہزار افراد اضافی دیے جا رہے ہیں اور ساتھ یہ پابندی بھی عائد کی جا رہی ہے کہ آئندہ تین برس تک انتظامیہ بھی تبدیل نہیں کی جائے گی، کے مطابق یہ انتظامیہ ہی تو آٹھ سو ارب روپے خسارے کی ذمہ دار ہے اور جب ان کو تبدیل نہیں کریں گے تو ادارہ کیسے چلے گا؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعد نذیر کا کہنا تھا کہ ’جو اہم چیز حکومت کو سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ پانچ بولی دہندگان ان کے پاس کیوں نہیں آئے، وہ پاکستانی اس لیے نہیں آئے کہ وہ حکومت کے سٹرکچر سے ڈرتے ہیں کہ ایک تو وہ چالیس فیصد حقوق کی مالک رہے گی، پھر ملازمین سے متعلق بھی پابندیاں ہیں۔

’جن میں سے اکثر بھرتیاں مختلف سیاسی ادوار میں ہوئی ہیں سو جو عام بزنس مین اس ادارے میں آئے گا تو اسے ملازمین سے متعلق فیصلے لیتے ہوئے سیاسی مداخلت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔‘

سعد نذیر نے الزام عائد کیا کہ ’اگر ہماری بولی قبول نہیں کی جاتی تو اس کا مطلب ہے کہ اونے پونے داموں ایئر لائن کسی بین الاقوامی کمپنی کو دے دی جائے گی۔ جو کہ اصل پلان ہے اور جس کی وجہ سے باقی بولی دہندگان نہیں آئے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ ان تمام تحفظات کے باوجود وہ پی آئی اے کے لیے بولی کا حصہ کیوں بننے جا رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور ملازمین والی شرط تین سال سے اٹھارہ ماہ پر لے آئے ہیں۔

’ابھی حکومت کا رجحان زیادہ اس جانب ہے کہ ارنسٹ منی (Earnest Money) کے علاوہ ایک معقول رقم حکومتی اکاؤنٹ میں آ جائے گی جس کا 85 فی صد پی آئی اے پر ہی خرچ ہو گا۔‘

چیئرمین بلیو ورلڈ سٹی نے بتایا کہ ’ہمارے پاس پی آئی اے کو چلانے کے لیے ایک قابل عمل بزنس پلان ہے۔ ہم لمبے عرصے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں سے طیارے لیز پر لیں گے، انہیں اپنے ساتھ شراکت دار بنائیں گے اور اس طرح صرف ایک دن میں پی آئی اے میں 30 سے 40 جہاز لائے جا سکتے ہیں۔ یہ سات ہزار ملازمتیں بچائی جا سکتی ہیں اگر ہم پی آئی اے میں جہاز لے آئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پی آئی اے کا اس وقت بھی ریونیو 200 ارب روپے ہے مگر ادارہ خسارے میں ہے، حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ جو ادارہ دو سو ارب روپے کے ریونیو سے نہیں چل رہا وہ 35 یا 40 ارب روپے کی انویسٹمنٹ سے کیسے چلے گا، دراصل مسئلہ پی آئی اے کا بزنس ماڈل ہے، جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان