پاکستان میں آئے روز احتجاج اور مظاہرے ہوتے رہتے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے پہلے حکومت سخت انتظامی اقدامات کا اعلان کرتی ہے لیکن ان سے بھی کام نہ چلے تو پولیس یا سکیورٹی فورسز کے ذریعے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تو جیسے احتجاج کا محور بن گیا ہے، جہاں کبھی سیاسی، کبھی تجارتی اور کبھی مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے باعث اس شہر اقتادر میں زندگی کئی کئی دنوں کے لیے بری متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو ایک اعلٰی سطح کے اجلاس میں ہدایت دی ہیں کہ ’بلوائیوں سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد اور ملک بھر میں انسداد بلوہ (Anti Riots) فورس قائم کی جائے۔‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکن رواں ہفتے جب دھرنے دینے کی غرض سے اسلام آباد پہنچے تو انہیں روکنے کے لیے پہلے کنٹینرز لگا کر شہر کے اندر اور باہر راستوں کو بند کیا گیا۔ تعلیمی ادارے اور انٹرنٹ سروسز بند کی گئیں۔
بعد ازاں آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کچھ کارگر نہ ہوا اور مظاہرین وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب پہنچ گئے تو پھر حکومت نے راتوں رات طاقت کا استعمال کر کے مظاہرین کو منتشر کیا۔
پی ٹی آئی اپنے احتجاج کو پرامن قرار دے رہی ہے، جب کہ حکومت نے اس کے شرکا کو ’شدت پسند‘ اور ’بلوائی‘ کہا کیوں کہ حکومت کے عہدیداروں کے مطابق مظاہرین کے پاس آتشی اسلحہ اور آنسو گیس کے ڈبے تک موجود تھے۔
اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم کو گذشتہ دنوں ملک میں دھرنوں کی صورت میں احتجاج کرنے والوں کی جانب سے سرکاری املاک اور پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں پر حملوں سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’قانونی راستہ اپنانے کی بجائے بارہا اسلام آباد کی طرف لشکر کشی کر کے ملک میں انتشار کی فضا پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ یہ کیسے انقلابی ہیں، جو اس ملک کی تباہی اور انتشار پھیلانے کی مزموم کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پر ’لشکر کشی کرنے والے شرپسند ٹولے کے خلاف فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے۔‘ وزیراعظم نے مزید کہا کہ گذشتہ دنوں کے واقعات کے ذریعے عوام میں اشتعال، بے یقینی اور انتشار پھیلانے والے عناصر کو قانون کے کٹھرے میں لایا جائے۔‘
ابھی تحریک انصاف کی تازہ حکمت عملی واضح نہیں لیکن بعض سیاسی تجزیہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ اب وہ تقریبا ایک سال تک دوبراہ مارچ کی کال شاید دینے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ تاہم وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کہ مطابق احتجاج ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔
انسداد بلوہ فورس ہوتی کیا ہے؟
وزیر اعظم نے اپنے اعلان میں اس نئی فورس کی تعداد تو نہیں بتائی لیکن یہ کئی سو سے ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں بلووں سے نمٹنے کے لیے خصوصی فورسز کے یونٹس ہوتے ہیں اور پاکستان کے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی الگ الگ پولیس فورس میں سے بھی کچھ دستوں کو ایسی صورت حال سے نمٹنے کی تربیت اور کچھ آلات دیے گئے۔ لیکن یہاں ایک الگ فورس کا تصور یا آئیڈیا نیا ہے۔
اینٹی روائٹس فورس کا کام معمول کے جرائم کو روکنا نہیں ہوتا بلکہ فسادات کی صورت میں فریقین سے نمٹنا اس کی ترجیح ہوتی ہے۔
بلووں کی صورت میں ایسی فورس کا کام نہ صرف ان کو روکنے کے لیے عملی طور پر میدان میں موجود ہونا ضروری ہے بلکہ ایک بات چیت کی حکمت عملی کے ذریعے فریقین کو عدم تشدد پر مائل کرنا بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی میں اسلام آباد میں اینٹی روائٹس یونٹس کو سیفٹی (اپنے دفاع) کے لیے خصوصی کٹس، ڈنڈے اور ایسے آلات دیے گئے کہ جن سے وہ فسادیوں کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
لیکن ایک خصوصی فورس کے لیے اس سے کہیں زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر یہ فورس الگ سے قائم ہو گی تو اس کی حکمت عملی مکمل طور پر عام پولیس سے مختلف ہو گی۔
اس وقت تک پولیس میں ایسے مختلف یونٹس براہ راستہ متعلقہ صوبے کی پولیس چیف کے احکامات کے ماتحت ہوتے ہیں۔
فسادات سے نمٹنے میں خصوصی فورس کا کردار
پاکستان میں ماضی میں بلووں سے نمٹنے کے لیے پہلے تو پولیس یا سکیورٹی فورسز کا استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن اگر کبھی حالات کنٹرول نہ ہوئے ہوں تو اس صورت میں بعض اوقات کرفیو کا نفاذ کیا گیا۔
انسداد بلوا فورس کا کام معمول کے جرائم کو روکنے کے لیے حکمت عملی بنانا نہیں بلکہ فسادات کی صورت میں فریقین سے بات چیت کر کے صورت حال پر قابو پانا اور دستیاب وسائل کی مدد سے براہ راست بلووں کو روکنا شامل ہوتا ہے۔ وہ ہجوم سے نمٹنے کے ماہر ہوتے ہیں۔
درکار وسائل
پاکستان میں نہ صرف صوبائی پولیس حتی کہ وفاقی دارالحکومت میں پولیس فورس کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ انہیں درکار اہلکاروں اور وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔
ایسے میں ایک نئی فورس کی تشکیل، اس کی تربیت اور درکار وسائل پہلے سے معاشی مشکلات میں گھری حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوں گے۔
خصوصی فورس کا غیر جانبدار ہونا
اگر حکومت خصوصی فورس کی تشکیل پر کام شروع کرتی ہے تو اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایسی فورس کا غیر جانبدار ہونا اہم ہو گا۔ کیوں کہ بلوے محض امن عامہ کا مسئلہ نہیں ہوتے بلکہ فریقین کا تعلق مختلف عقائد اور سیاسی پس منظر سے ہو سکتا ہے۔ اس لیے غیر جانبدار فورس زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہے۔