سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران جمعے کو ملٹری کورٹس کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے اس کیس پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔
سماعت کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
آج سب سماعت کا آغاز ہوا تو آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے علاوہ دیگر تمام مقدمات کی سماعت موخر کر دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’آج صرف فوجی عدالتوں والا مقدمہ ہی سنا جائے گا۔‘
جس کے بعد وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
ان کے دلائل کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں؟‘
انہوں نے مزید استفسار کیا کہ ’کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر شخص کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’اس پہلو کو بھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973کے آئین سے پہلے بنا تھا۔‘
اس موقعے پر جسٹس محمد علی مظہر نے بھی استفسار کیا کہ ’پہلے یہ بتائیں کہ عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔
جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’عدالتی فیصلے کو اتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں۔‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ’معذرت خواہ ہوں، میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقعے پر کہا کہ ’کل بھی کہا تھا کہ نو مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں۔ فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کورکمانڈر ہاؤس کا ہی ہے، اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو یہ بھی بتا دیں۔‘
اس کیس کی گذشتہ روز (12 دسمبر کو) ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے گذشتہ سال فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات سے متعلق نو اور 10 مئی کو درج ہونے والی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
آج سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں۔ ’تفصیلات باضابطہ طور پر متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرواؤں گا۔‘
اس موقعے پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہوگا؟ نو مئی سے پہلے بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی۔‘
جس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’عمومی طور پر کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پر ہونے والے فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقعے پر ریمارکس دیے کہ یہ تو ان ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی۔
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ایک موقعے پر ریمارکس دیے کہ فوج میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ فوج میں شمولیت حاصل کرنے والے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے۔ آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کے لیے گیا ہے۔
جس پر وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فوج میں کوئی بھی جرم کی نیت سے نہیں جاتا۔ بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اسفتسار کیا کہ کیا اپیل میں عدالت صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک ہی محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟
جبکہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں، عدالت نہیں۔
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے کہا کہ ’ابھی دلائل میں مزید کچھ وقت لگ جائے گا۔‘
جسٹس امین الدین خان نے ان سے استفسار کیا کہ ’آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک کیس ملتوی کر دیتے ہیں۔‘
جس کے بعد ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی گئی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا کیس جنوری 2025 کے دوسرے ہفتے میں سننے کا عندیہ دے دیا۔
جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ ’جنوری کے پہلے ہفتے یہ کیس ختم ہوا تو 26 ویں ترمیم کا کیس دوسرے ہفتے سنیں گے۔‘