فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف اپیل: نو مئی واقعے کی ایف آئی آرز عدالت طلب

جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’جو شخص مسلح افواج میں نہیں وہ اس کے ضوابط کے تحت کیسے آ سکتا ہے؟‘

چھ اپریل، 2022 کی اس تصویر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر(اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے جمعرات کو وفاقی حکومت سے گذشتہ سال فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات سے متعلق نو اور 10 مئی کو درج ہونے والی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کر لیں۔ 

عدالت عظمیٰ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی آج سماعت میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ ملٹری کورٹ کے زیر حراست افراد کی ایف آئی آرز کی نقول نہیں دی گئیں۔

اس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے کی۔

بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا، دوسرے حصے میں ملزمان ملٹری کورٹ کی تحویل میں ہیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کا ’پورا کیس آرٹیکل آٹھ کے گرد گھومتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’کیا پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ دفعات کو آرٹیکل آٹھ سے متصادم قرار دیا؟ آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل آٹھ سے متصادم ہونے کا کیا جواز فیصلے میں دیا گیا؟‘

جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’جو شخص مسلح افواج میں نہیں وہ اس کے ضوابط کے تحت کیسے آ سکتا ہے؟‘ اس کے جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ ’اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ضابطے کا اطلاق ہو گا۔‘ 

اس کے بعد جسٹس جمال مندوخیل نے مزید سوالات کیے کہ ’ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہو گا۔ ایک شخص محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہو گا۔ اگر کوئی شخص کسی محکمہ میں سرے سے ہے ہی نہیں اس پر آرمی فورسز کے ضوابط کا اطلاق کیسے ہو گا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ضوابط کے نیچے لانا آرٹیکل آٹھ کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟‘ 

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’کیا آرمی ایکٹ کے تحت کیس چلے تو ملزم کے بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں؟ کیا آرمی ایکٹ کے زمرے میں آنے والا کسی اور دنیا میں چلا جاتا ہے؟‘

خواجہ حارث نے جواباً کہا کہ ’مخصوص حالات میں سویلینز پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اس نقطے پر عدالتی فیصلہ موجود ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقعے پر کہا کہ ’ایف بی علی اور شیخ ریاض علی کیس میں یہی قرار دیا گیا، چار ججز نے فیصلہ میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کیا۔‘

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔‘

کیا سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا۔ کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل آٹھ کے سیکشنز 1 غیر موثر نہیں کر دیے، کیا سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے؟‘ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’ملٹری کورٹ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کو یہاں سنا جا رہا ہے، عدالتی فیصلے میں سب سے پہلے نقائص کی نشاندہی کریں؟‘

جسٹس جمال مندوخیل نے اس موقعے پر کہا کہ ’آئینی بینچ انٹرا کورٹ اپیلوں میں بھی آئینی نقطے کا جائزہ لے سکتا ہے۔‘

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’برادر جج کے مشاہدے سے میرا اختلاف نہیں، فیصلے میں نقائص کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر پاکستان کا ہے، اگر صدر ہاوس پر حملہ ہوتا تو ملزم کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں ہو گا۔ اگر فوجی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل  ملٹری کورٹ میں۔‘

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔‘ 

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟‘

خواجہ حارث نے جواباً کہا کہ ’ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ ’اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟‘

وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔‘ یہ جواب سن کر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’جس پر آرمی ایکٹ لاگو نہیں ہوتا اس کو بنیادی حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟‘

فوج کا ڈسپلن آج بھی قائم ہے: جسٹس جمال مندوخیل 

جسٹس جمال مندوخیل نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ’آئین کے آرٹیکل آٹھ میں آرمی قوانین کا ذکر انک ے ڈسپلن کے حوالے سے ہے۔ فوج کے ڈسپلن میں اگر عام لوگوں کو شامل کیا تو یہ تباہ نہ ہو جائے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ’فوجی کو قتل کرنے والے کا مقدمہ عام عدالت میں چلتا ہے، فوجی تنصیبات پر حملہ بھی تو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہی جرم ہے۔‘ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’ذاتی عناد پر فوجی کا قتل الگ اور بلوچستان طرز پر فوج پر حملہ الگ چیزیں ہیں۔‘

 سپریم کورٹ ملٹری کورٹ کیس کی سماعت مزید دلائل کے لیے جمعے  تک ملتوی کر دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان