مانجھی فقیر: بھٹائی کا پیروکار، جو پیار کے گیت نہ گائے تو گھٹن سے مر جائے گا

سندھی چادر اوڑھے مانجھی فقیر کو دیکھ کر ہم نے کہا کہ ’سائیں آپ بالکل ایک سادھو کی طرح لگتے ہیں،‘ جس پر انہوں نے کہا: ’سائیں، فقیر سادھو نہیں بھٹائی کا پیروکار ہے۔ ہم دنیا چھوڑ کر الگ تھلگ بیٹھنے کے بجائے محبت بانٹتے پھرتے ہیں۔‘

تقریباً تین ماہ گزر چکے لیکن ڈاکٹر شاہ نواز کے قتل اور اس کے بعد پیدا ہونے والی خوف کی فضا کو یاد کرتے ہوئے آج بھی مانجھی فقیر کی آواز میں غمگینی اتر آتی ہے۔ چند روز قبل انہیں ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے ایوارڈ سے نوازا۔

اس موقعے پر انہوں نے سندھ کے مجموعی مزاج، اپنی زندگی کے سفر اور عمر کوٹ واقعے کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے مختصر گفتگو کی۔

رواں برس ستمبر میں ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کی پولیس مقابلے میں موت اور لاش کو نذر آتش کرنے کے واقعے نے عمر کوٹ کے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ خوف کی فضا میں مانجھی فقیر کی صدا گونجتی ہے اور پورا سندھ ان کا ہم آواز ہو کر’سولیاں تے منصور چڑھایا‘ گانے لگتا ہے۔

اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’یہ سندھ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا، وہ منظر نہیں بھولتا جب میں نے شاہ نواز کی قبر کا پوچھا تو ان کے گھر والے بول نہیں پا رہے تھے۔ بڑی مشکل سے انہوں نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔ یہاں تک کہ وہ پُرسہ لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔‘

سندھی چادر اوڑھے مانجھی فقیر کو دیکھ کر ہم نے کہا کہ ’سائیں آپ بالکل ایک سادھو کی طرح لگتے ہیں،‘ جس پر انہوں نے کہا: ’سائیں، فقیر سادھو نہیں بھٹائی کا پیروکار ہے۔ ہم دنیا چھوڑ کر الگ تھلگ بیٹھنے کے بجائے محبت بانٹتے پھرتے ہیں۔‘

2022 میں جب ماما جمن دربدر فوت ہوئے تو ان کی خواہش کے مطابق انہیں گیتوں کے سائے میں رخصت کیا گیا۔ ’وٹھی ھر ھر جنم وربو، مٹھا مہران میں ملبو‘ یعنی ’ہر دور میں جنم لے کر لوٹیں گے، میرے پیارے ہم مہران میں ملیں گے، ہم ملیں گے جب اندھیرا چھٹ جائے گا اور چاندنی رات اپنے جوبن پر ہو گی۔‘

یہ گیت گانے والوں میں مانجھی فقیر پیش پیش تھے۔ ان پر فتویٰ لگا، اس سے پہلے ایک موقعے پر ان کے والد کی درگاہ پر چڑھائی کی گئی، لیکن بھٹائی کا یہ بھگت سمجھتا ہے کہ ’محبت کے گیت نہ گائے تو گھٹن سے مر جاؤں گا۔‘

ہم نے ان سے نام کے بارے میں پوچھا کہ ایسا خوبصورت نام کیا انہوں نے خود چنا؟

وہ کہتے ہیں: ’میرے والد نے رکھا۔‘

ان کی شخصیت میں رچی شہد جیسی مٹھاس اور عاجزی دیکھ کر مانجھی فقیر سے بہتر کوئی دوسرا نام ذہن میں نہیں آتا۔

مانجھی فقیر صرف ملائیت کے خلاف مضبوط آواز نہیں ہیں بلکہ سماجی برابری کے علمبردار اور مزاحمتی کردار بھی ہیں۔ وہ ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جی ایم سید کے مدفن کے احاطے میں کچھ ملاح دفن ہیں۔ ملاح نچلے طبقے کی ذات سمجھی جاتی ہے۔ بعد میں جی ایم سید کی آل اولاد نے انہیں وہاں سے نکال کر الگ جگہ دفن کرنے کی کوشش کی تو ہم ڈٹ گئے۔ ہم نے کہا: ’بھئی یہ کیا کر رہے ہو۔ جی ایم سید سندھ کا سیاسی رہبر ہے۔ آپ ان کی ساری زندگی کی کمائی پر پانی پھیر رہے ہیں؟‘

ایک موقعے پر مانجھی فقیر کہنے لگے: ’سائیں ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں۔‘

ہم نے فوراً ٹوکتے ہوئے کہا: ’سائیں، یونیورسٹیوں کے گریجویٹس آپ کے پیروں کی دھول برابر نہیں، آپ تو گیانی ہیں۔‘

کہنے لگے: ’نوجوانی میں گھر سے نکلا اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا، مختلف درگاہوں پر گئے، کان میں چھید کر کے چھلا ڈال لیا۔ جو کچھ سیکھا اسی طرح سیکھا۔‘

مانجھی فقیر کو دیکھ کر میر کا شعر یاد آتا ہے:

آب حیات وہی نا جس پر خضر و سکندر مرتے رہے
خاک سے ہم نے بھرا وہ چشمہ یہ بھی ہماری ہمت ہے

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ