سارہ قتل کیس، عرفان نے میرے جسم پر اپنا نام کندہ کرنے کی کوشش کی: سابق گرل فرینڈ

عرفان کی سابقہ گرل فرینڈ کے مطابق عرفان انتہائی تشدد پسند تھے اور چاہتی ہیں کہ عرفان کو سارہ شریف قتل کیس میں سخت سے سخت سزا ملے۔

سری پولیس کی جانب سے یکم نومبر، 2024 کو جاری کردہ ہینڈ آؤٹ تصویر میں 13 ستمبر، 2023 کو گیٹوک ایئرپورٹ پر برطانوی- پاکستانی لڑکی سارہ شریف کے والد عرفان شریف کی گرفتاری کے دوران پولیس افسر کے باڈی کیم فوٹیج سے لیا گیا ایک منظر دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

سارہ شریف کے والد عرفان شریف کی سابق گرل فرینڈ نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح وہ عرفان کی جانب سے انہیں گھر میں قید کرنے پر خوف زدہ ہو گئی تھیں۔ اسی طرح عرفان نے ایک بار ان کے چہرے پر چاقو تان لیا اور بے رحمی کے ساتھ ان پر اسقاط حمل کا الزام لگایا۔

اینجلیکا نامی خاتون پہلی بار عرفان سے اس وقت ملیں جب وہ نوعمری میں پولینڈ سے برطانیہ آئیں اور بچی کو مارنے والے شخص کے ساتھ تعلق قائم کیا۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ جلد ہی یہ تعلق بدسلوکی میں تبدیل ہو گیا کیوں کہ عرفان حسد اور انہیں قابو میں رکھنے کی خواہش میں مبتلا ہو گئے تھے۔

عرفان کے اپنی 10 سالہ بیٹی کو اذیت دینے اور قتل کرنے کا مجرم قرار دیے جانے پر اینجلیکا نے برطانوی اخبار ڈیلی میل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں مسلسل یہ سوچتی رہی کہ وہ میں بھی ہو سکتی تھی۔ میرا بچہ بھی ہو سکتا تھا۔

’یہ میرے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ یہ سب کر سکتے تھے۔‘

اینجلیکا، عرفان شریف، جو اب 42 سال کے ہیں، سے اس قدر خوف زدہ تھیں کہ ایک بار گھر میں قید ہونے پر وہ کھڑکی سے بھاگ نکلیں اور ان سے جان چھڑانے کے لیے واپس پولینڈ چلی گئیں۔

اینجلیکا کہتی ہیں کہ عرفان ان کے ہر عمل پر نظر رکھتے تھے۔ ان کا پاسپورٹ چرا لیا اور یہاں تک کہ ان کی جِلد کو جلا کر اپنا نام لکھنے کی کوشش بھی کی۔

جب ان کا بچہ ضائع ہو گیا، تو اینجلیکا کے مطابق شریف نے انہیں اسقاط حمل کا الزام دیا۔ انہوں نے اس واقعے کو ’بہت تکلیف دہ‘ قرار دیا، جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے ان سے الگ ہو گئیں۔

اینجلیکا کا کہنا تھا کہ ’یہ میری زندگی کا سب سے خوف ناک واقعہ تھا۔ ’لیکن اب کسی تاریک پہلو سے میں خود کو خوش قسمت محسوس کرتی ہوں کہ یہ سب میرے بچے کے ساتھ نہیں ہوا۔‘

اینجلیکا نے بتایا کہ پہلی بار عرفان شریف سے ووکنگ کے علاقے میں واقع برگر کی دکان میں ملیں، جہاں وہ ان کے شفٹ مینیجر تھے۔

عرفان ان سے عمر میں نو سال بڑے تھے۔ اینجلیکا کے مطابق ابتدا میں ان کا تعلق اچھا چل رہا تھا، لیکن جلد ہی عرفان کی حسد ان پر غالب آ گئی۔

وہ غصے میں ان کے فلیٹ واپس آتے، انہیں بیڈ پر پٹخ دیتے اور ان پر بے وفائی کا الزام لگاتے۔

2007 کے موسم سرما میں عرفان کا رویہ مزید خراب ہو گیا۔ اینجلیکا کے مطابق ایک بار انہوں نے انہیں فولڈنگ کرسی اٹھا کر مارنے کی دھمکی دی اور پھر چاقو اٹھا لیا۔

اینجلیکا نے کہا: ’انہوں نے چاقو میرے گلے پر رکھ دیا اور کہا کہ ’تم میری ہو، صرف میری۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں ان کے بغیر کہیں نہیں جا سکتی، اور اگر میں نے کسی سے بات کی تو میرا انجام برا ہوگا۔‘

فرار ہونے کے بعد اینجلیکا نے پولیس کو رپورٹ کی، جس پر عرفان کو گرفتار کر کے 48 گھنٹے کے لیے جیل میں رکھا گیا۔

اینجلیکا کا کہنا تھا کہ ’عرفان کے دو چہرے ہیں۔ ایک مہربان، اچھا، بہت محبت بھرا اور ہمیشہ معذرت کرنے والا، لیکن دوسرا چہرہ، جو لوگ نہیں دیکھتے، وہ شیطان کا چہرہ ہے۔‘

بالآخر انہوں نے اپنا بیان واپس لے لیا اور پولینڈ واپس چلی گئیں۔ لیکن عرفان نے انہیں وہاں بھی تنگ کرنا اور معافیاں مانگنا جاری رکھا۔

یہاں تک کہ مارچ 2008 میں وہ دوبارہ صلح کے لیے تیار ہو گئیں۔ جلد ہی اینجلیکا حاملہ ہو گئیں اور یہ خبر عرفان کے لیے خوشی کا باعث بنی۔

لیکن یہ خوشی اس وقت غم میں بدل گئی جب انہوں نے بچہ کھو دیا۔ پولینڈ کے سفر کے دوران عرفان، اینجلیکا کا جنونی انداز میں پیچھا کر رہے تھے کہ ان کی مبینہ ملاقات اولگا ڈومن سے ہوئی جو سارہ کی والدہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرفان نے اولگا کو برطانیہ آنے کی دعوت دی تاکہ ان کے ساتھ تعلق قائم کیا جا سکے۔

اینجلیکا نے کہا کہ ’اب جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں کہ وہ طویل عرصے تک بدسلوکی کرتے رہے۔ اپنے ہی بچی کے ساتھ۔ یا خدا، میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ یہ لاکھوں ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ روزانہ مقدمے کی کارروائی دیکھتی رہیں اور امید کرتی ہیں کہ عرفان کو ان کے جرائم کی سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

’کیوں کہ میں ہر دن یہ سوچتی تھی کہ وہ میں ہو سکتی تھی۔ یہ خیال ہمیشہ میرے ذہن میں رہتا ہے۔ ہمیشہ۔

’اگر میں اس کے ساتھ تعلق میں رہتی تو یہ سب بدتر سے بدتر ہوتا۔ یہی میری زندگی بن جاتی۔‘

عرفان کو اپنی بیوی بینش بتول کے ساتھ سارہ کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا جب سکول جانے والی اس بچی کو سرے کے علاقے میں ان کے گھر میں مردہ حالت میں پایا گیا۔

بچی کے جسم پر 70 سے زائد زخم تھے۔ 25 ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ انہیں دماغی چوٹ پہنچی تھی۔

ٹخنوں پر گرم پانی سے جھلسنے اور گھر میں استعمال ہونے والی استری سے کمر جلانے کے نشان تھے۔

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ سارہ کو زندگی کے آخری برسوں میں ’بدسلوکی کی ایک مہم‘ کا سامنا کرنا پڑا جس میں انہیں کرکٹ کے بیٹ اور دھاتی راڈ سے اذیت دی گئی اور ان کے زخموں کو چھپانے کے لیے انہیں سکول جانے سے روک دیا گیا۔

اولڈ بیلی میں مقدمے کی سماعت کے بعد عرفان اور بینش دونوں کو مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی جب کہ عرفان کے بھائی فیصل ملک کو سارہ کی موت کا سبب بننے یا ان کی موت کی اجازت دینے کا مجرم قرار دیا گیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا