امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے کہا ہے کہ وہ ایک شامی شخص کی شناخت کے حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے جنہوں نے ممکنہ طور پر نیٹ ورک کو ’جعلی شناخت‘ کی بنیاد پر انٹرویو دیا۔
ویب سائٹ دا ڈیلی بیسٹ ڈاٹ کام کے مطابق یہ انکشاف اس وقت ہوا جب حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والے شام کے ایک ادارے نے الزام لگایا کہ یہ شخص شہریوں کے قتل اور تشدد میں ملوث تھے۔ یہ معاملہ ایک ایسے نشریاتی پروگرام کے بعد سامنے آیا جس میں اس شخص کو دمشق کی ایک خفیہ جیل سے رہا ہوتے ہوئے دکھایا۔
یہ رپورٹ نیٹ ورک کی چیف انٹرنیشنل رپورٹر کلاریسا وارڈ نے پیش کی جو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد 11 دسمبر کو اپنی ٹیم کے ساتھ اس جیل کا دورہ کر رہی تھیں۔
ان کا پروگرام جو ایک دن بعد نشر ہوا، میں وارڈ کہتی ہیں کہ وہ وہاں امریکی صحافی آسٹن ٹائس کی تلاش کے لیے موجود تھیں، جو 2012 میں شام میں رپورٹنگ کے دوران اغوا ہو گئے۔
سی این این کی ٹیم مسلح گارڈ کے ساتھ جیل میں داخل ہوئی۔ سی این این ذرائع نے ڈیلی بیسٹ کو بتایا کہ شامی گارڈ کا تعلق اپوزیشن فورسز کے ساتھ تھا۔ جیل میں داخل ہونے کے بعد ٹیم نے ایک بند سیل دیکھا جس میں زمین پر ایک کمبل کے نیچے کچھ چھپایا گیا معلوم ہو رہا تھا۔
محافظ نے تالا کھولنے کے لیے اس پر فائرنگ پر رضامندی ظاہر کی لیکن اس شرط پر کہ سی این این ٹیم کیمرے بند کر دے۔
جب دروازہ کھولا گیا اور کیمرے دوبارہ آن کیے گئے، تو ٹیم نے کمبل کے نیچے ایک شخص کو پایا۔ انہوں نے اپنی شناخت عادل غربال کے طور پر کرائی اور کہا کہ ان کا تعلق حمص سے ہے اور وہ تین مہینے سے اس سیل میں قید ہیں۔
کلاریسا وارڈ نے اس شخص سے پوچھا کہ ’آپ ٹھیک ہیں۔ آپ ٹھیک ہیں۔‘ مذکورہ شخص اس حقیقت سے بے خبر دکھائی دیے کہ اسد کی آمریت ختم ہو چکی۔
تاہم اتوار کو ایک شامی فیکٹ فائنڈنگ گروپ نے دعویٰ کیا کہ اس شخص کی کہانی مکمل طور پر قابل اعتماد نہیں۔ ’ویری فائی سی‘ جو پوائنٹر کے انٹرنیشنل فیکٹ چیکنگ نیٹ ورک کا حصہ ہے، نے رپورٹ کیا کہ اس نے اس شخص کو شامی ایئر فورس انٹیلی جنس کے فرسٹ لیفٹیننٹ کے طور پر شناخت کیا جو اسد حکومت کے خفیہ ادارے کے ساتھ سے وابستہ تھے۔
ویری فائی سی نے سرکاری ریکارڈز دیکھا لیکن مذکورہ شخص کی شناخت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ حمص کے مقامی لوگوں سے انٹرویوز کے بعد الزام لگایا کہ اس شخص کا اصلی نام سلامہ محمد سلامہ عرف ابو حمزہ ہے۔
ویب سائٹ نے سلامہ پر ’چوری، بھتہ خوری، اور شہریوں کو مخبری پر مجبور کرنے‘ کا الزام لگایا۔
سی این این نے ایک بیان میں کہا کہ رپورٹ میں وہ واقعات درست طور پر دکھائے گئے جو اس کے عملے کے جیل کے دورے کے دوران پیش آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی این این کے ترجمان نے ڈیلی بیسٹ کو بتایا: ’سی این این ٹیم کے علاوہ کسی کو بھی اس دن ہماری رپورٹ میں شامل جیل کی عمارت کے دورے کی منصوبہ بندی کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ یہ واقعات اسی طرح پیش آئے جیسا کہ ہماری فلم میں نظر آ رہے ہیں۔ ہماری رپورٹ میں دکھائے گئے قیدی کو رہا کرنے کا فیصلہ گارڈ جو ایک شامی باغی تھے نے کیا۔ ہم نے منظر کو اسی طرح رپورٹ کیا جیسے وہ پیش آیا۔ جس میں قیدی نے ہمیں جو بتایا اسے واضح حوالے کے ساتھ شامل کیا گیا۔‘
ترجمان نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ممکن ہے کہ قیدی نے جھوٹی شناخت فراہم کی ہو۔ ’ہم ان کے پس منظر کی مزید تحقیقات کر رہے ہیں اور ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ جھوٹی شناخت فراہم کر سکتے ہیں۔ ہم اس معاملے اور وسیع تر سٹوری پر اپنی رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
ویری فائی سی نے مقامی لوگوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سلامہ کو تقریباً ایک ماہ قبل دمشق کی جیل میں ڈالا گیا کیوں کہ ان کا ایک اعلیٰ افسر کے ساتھ مبینہ طور پر بھتے کی رقم پر جھگڑا ہوا۔
ویب سائٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سلامہ 2014 میں شہریوں کے قتل اور تشدد میں ملوث ہیں۔
ڈیلی بیسٹ ان الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
ویری فائی سی نے قیدی کی بظاہر اچھی حالت اور تراشی ہوئی داڑھی کو دیکھتے ہوئے سوال اٹھایا کہ آیا یہ پروگرام پیشگی منصوبہ بندی کر کے بنایا گیا۔
دیگر افراد نے بھی اس رپورٹ کے پہلی بار نشر ہونے پر اسی قسم کے خدشات ظاہر کیے۔ میڈیایٹ کے رپورٹر چارلی نیش نے پروگرام کو ’عجیب‘ قرار دیا اور کہا کہ اس پر ’بہت سے سوالات اٹھتے ہیں‘ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ’قیدی کی غیرمعمولی طور پر اچھی حالت‘ کیسے ممکن ہے جنہوں نے مبینہ طور پر چار دن سے کچھ کھایا یا پانی نہیں پیا تھا۔