راستہ دھمکیوں سے نہیں، سیاست سے نکلے گا

اگر سول نافرمانی جیسا غیر دانشمندانہ فیصلہ کر لیا گیا تو نوشتہ دیوار یہ ہے کہ خود کو دیوار سے لگانے والی پی ٹی آئی اس کے بعد خود کو دیوار میں چنوا بھی دے گی۔

17 فروری 2024 کی اس تصویر میں علی امین گنڈا پور نے آٹھ  فروری کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ایک ریلی میں اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کا پورٹریٹ اٹھا رکھا ہے (اے ایف پی)

فائنل کال کے بعد تحریکِ انصاف کی جانب سے مذاکرات کی بات سے سیاسی عدم استحکام میں کمی کی آخرکار کوئی امید پیدا ہوئی ہے۔

قطع نظر اس کے کہ انہی سطور میں تحریک انصاف کی گذشتہ دو سالوں کی سیاسی حکمتِ علمی سے اختلاف رائے کا اظہار تسلسل سے ہوتا رہا اور وہ بھی ان الفاظ کے ساتھ کہ نوشتہ دیوار یہ ہے کہ ناقص سیاسی حکمت تحریک انصاف کو بند گلی میں جا پہنچائے گی۔

اس میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ ایسا ہو چکا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں تحریک انصاف کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کی ہامی بھرنا پارٹی کا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے، چاہے اس فیصلے کی وجہ فائنل کال کی ناکامی ہو یا سول نافرمانی جیسا ایک اور غیر سیاسی (احمقانہ ہی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے) ’آخری پتہ‘ نامی فیصلہ جو شروع ہونے سے پہلے ہوا میں اڑ کر معلق ہو چکا ہے۔

لیکن حکومت سے مذاکرات پر آمادگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ تحریک انصاف اب قومی دھارے کی سیاست میں واپسی کا سگنل دے چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی حامی اور پھر مذاکرات کو فائنل کال کی ناکامی اور جنرل فیض کے بعد عمران خان کے ٹرائل سے جوڑنا ایک ملا جلا ردعمل ہے جو اس موقع کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف کی جانب سے ایک طرف مذاکرات اور دوسری جانب سول نافرمانی کی تحریک ’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘ کے ہی مترادف ہے۔

بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر غیر مشروط مذاکرات کی بات کر رہے ہیں تو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا مسلح ہو کر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی۔ تحریک انصاف خود کو دیوار سے لگا چکی ہے لیکن یہ سیکھنے سے ابھی بھی انکاری ہے کہ سیاسی بصیرت نام کی کوئی شے وجود رکھتی ہے۔

روش اگر یہی رہی اور سول نافرمانی اور مسلح ہو کر اسلام آباد آنے پر عمل پیرا ہونے کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کر لیا گیا تو نوشتہ دیوار یہ ہے کہ خود کو دیوار سے لگانے والی پی ٹی آئی اس کے بعد خود کو دیوار میں چنوا بھی دے گی۔

لیکن جو بھی اور جیسے بھی حالات ہوں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے میں پہل حکومت وقت کو ہی کرنا ہوتی ہے۔ اور بہتر ہوتے معاشی اشاریے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اب سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

حکومت کو یہ سوچنا پڑے گا کہ سیاسی عدم استحکام زور زبردستی ختم نہیں ہوا کرتے اور تحریک انصاف کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ریاست کی قیمت پر سیاست جیسی سیاسی حکمتِ عملی بند گلی میں لے جا کر دیوار سے لگا دیتی ہے اور پھر دیوار میں چنوا بھی دیتی ہے۔

تادم تحریر نہ تو  پیپلز پارٹی اقتدار میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی منصوبہ زیر غور ہے، فی الحال سب اسی تنخواہ میں کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

سیاست میں آپ سیاست کرتے ہیں جنگ نہیں لڑتے۔ فائنل کرکٹ کے میدان میں ہوا کرتا ہے، سیاست میں کچھ بھی فائنل یا حرف آخر (فائنل کارڈ اور فائنل کال) نہیں ہوا کرتے، آپ کو تین قدم آگے بڑھنے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ جنگ اور کھیل کا میدان تو فیصلہ کن ہو سکتا ہے جس میں فائنل میچ ختم ہونے کے بعد فاتح اور رنر اپ سامنے آ جاتے ہیں، سیاست ایک ایسی لانگ ٹرم گیم ہے جس میں آج ہارنے والا اپنی بہترین سیاسی حکمت عملی سے کم بیک کر کے فاتح کو چاروں شانے چت کر دیتا ہے۔

نوشتہ دیوار یہی ہے جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ تادم تحریر نہ تو  پیپلز پارٹی اقتدار میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی منصوبہ زیر غور ہے، فی الحال سب اسی تنخواہ میں کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ایسے میں تحریک انصاف کو اکھاڑے میں دوبارہ آ کر اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو چاروں شانے چت کرنا ہے تو اس کا رستہ قومی دھارے کی سیاست ہے، سول نافرمانی یا مسلح ہو کر اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں نہیں۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر