قرضِ جاں: صنف نازک کو صنف آہن بنانے کا سبق

نہایت تیزی سے آگے بڑھتا ڈراما ’قرضِ جاں‘ اپنے اچھوتے موضوعات، اداکاری اور تیز ٹیمپو کی وجہ سے ناظرین کو گرفت میں لے رہا ہے۔

ڈرامے میں یمنیٰ زیدی اور اسامہ خان مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں (ہم ٹی وی)

’ایک بیوہ کے لیے اس کے اپنے ماں باپ بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ ایک بیوہ عورت وہ بھی ایک بیٹی کی ماں، اگر اس کے سر پر چھت نہ ہو تو یہ دنیا اس کے لیے جنگل بن جاتی ہے۔‘

ڈراما سیریل ’قرض جاں‘ کے یہی طاقت ور مکالمات ہیں جو اس معاشرے میں بیوگی کا داغ سہنے والی خواتین کے دکھ ، کرب اور درد کو بیان کرتے ہیں، وہیں ناظرین کا ناطہ حال ہی میں شروع ہونے والے اس ڈرامے سے جوڑے ہوئے ہیں۔ ڈرامے کے جذباتی موڑ اور پھر اس کی کہانی نے جلد ہی اس تخلیق کو سب کا من پسند بنا دیا ہے۔

ڈرامے میں اگر یمنیٰ زیدی ہوں تو ہر ایک کی دلچسپی خودبخود اس تخلیق میں بڑھ جاتی ہے۔ یمنیٰ زیدی ’قرض جاں‘ میں وکیل نشوا بہزاد کے روپ میں ہیں اور اس شعبے کو اختیار کرنے کے لیے انہیں خاندان کے ہی آگ کے دریا کو پار کرنا پڑا۔ لاکھ مخالفت کے وار ان پر ڈھائے گئے لیکن وہ ثابت قدم رہیں اور اپنی منزل کو پانے کے لیے ڈٹ کر اپنے رشتے داروں کا مقابلہ کیا۔ نشوا کے ہیرو کا کردار اسامہ خان ادا کر رہے ہیں۔

یمنیٰ زیدی اور اسامہ خان کامیاب فلم ’نایاب‘ کی جوڑی رہی ہے، جسے اب چھوٹی سکرین پر یکجا کیا گیا ہے۔ رابعہ رزاق کے لکھے ہوئے اس ڈرامے کے ہدایت کار ثاقب خان ہیں جبکہ یمنیٰ زیدی اور اسامہ خان کے علاوہ تزئین حسین، سکینہ سموں، دیپک پروانی، فیصل رحمان اور تبسم عارف نمایاں اداکاروں میں شامل ہیں۔

ڈرامے کی کہانی بسمہ یعنی تزئین حسین اور ان کی بیٹی نشوا بہزاد (یمنیٰ زیدی) کے گرد گھوم رہی ہے۔ بسمہ جوانی میں ہی بیوہ ہونے کا دکھ سہتی ہے۔ اس کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ جانتے بوجھتے اس کی شادی ایک بیمار شخص سے کروائی گئی جو جلد اس سے بچھڑ گیا۔ شوہر کا ساتھ چھٹ جانے کے بعد وہ پھر سے گھر بسا سکتی تھی لیکن سسرال والے اسے اپنی مرضی سے جینے کے بجائے اپنے گھر سے آزادی نہیں دیتے۔

یعنی جیتے جی اس کے ارمانوں اور خواہشات کو ذبح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اس بےرحمی اور سفاکیت میں ساس یعنی سکینہ سموں کی چالاکی نمایاں رہتی ہے جو دوسروں کو حقوق العباد کا درس دینے میں مصروف عمل ہے جب کہ خود بسمہ کے ارمانوں کا خون کرنے میں اپنا حصہ ڈالتی ہے اور ان سب کے پس پردہ مقصد صرف یہ ہے کہ مرحوم بیٹا اپنی تمام تر جائیداد بیٹی اور اہلیہ کے نام کر کے ابدی نیند سویا ہے اور ساس کو دھڑکا یہی لگا رہتا ہے کہ کہیں ہاتھ سے اربوں روپے کی جائیداد نہ نکل جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دلچسپ بات یہ ہے کہ بسمہ اس شادی سے پہلے عاصم (فیصل رحمان) سے محبت کرتی تھی لیکن والدین کی خواہش کے آگے وہ اپنی محبت کی قربانی دینے میں دیر نہیں کرتی۔ یہاں یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جس گھر میں نشوا اور اس کی ماں ڈری سہمی اور دوسروں کے حکم کے تابع رہتی ہیں وہ دراصل عاصم کا ہی ہے۔

اب اسی عاصم کا بیٹا برہان (اسامہ خان) ہے جو آنے والی قسطوں میں نشوا کی محبت کا اسیر بنے گا اور کہانی میں اس وقت یقینی طور پر ڈرامائی موڑ آئے گا جب نشوا پر یہ خبر بجلی بن کر گرے گی کہ برہان ان کی والدہ کی پہلی محبت کا بیٹا ہے۔

یمنیٰ زیدی کی اداکاری دیکھ کر گمان ہی نہیں ہوتا کہ وہ ڈراما سیریل ’جینٹلمین‘ کی زرناب ہیں۔ جس طرح یمنیٰ زیدی ہر ڈرامے کے مختلف کردار کو اپنے اوپر طاری کر لیتی ہیں وہ واقعی غیر معمولی فن ہے۔ نشوا کے کردار میں بھی یمنیٰ زیدی نے حسب روایت وہی سب کچھ پیش کیا ہے جو ان سے توقع کی جاتی ہے۔

باپ کا سایہ نہ ہونے کے باوجود وہ نڈر اور بہادر ہیں جو اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتی ہے لیکن قدم قدم پر اس کے لیے مشکلات ہیں۔ کئی بار تایا اور دادی کے سخت فیصلے اس کے پیروں کی زنجیر بنتے ہیں تو وہ انتہائی بے بسی اور لاچارگی کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ’یتیم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کا باپ نہیں ہوتا تو ساری دنیا آپ کے بھلے کا سوچ رہی ہوتی ہے۔ ہر کوئی آپ کا باپ بنا ہوتا ہے۔‘

اگر یہ کہا جائے تو بےجا بھی نہ ہو گا کہ ’قرضِ جاں‘ میں تزئین حسین کی اداکاری نے سب کو چونکا دیا ہے۔ تزئین حسین اس کردار میں اب تک پرفارمنس سے ثابت کر چکی ہیں کہ وہ کیوں اس کردار کے لیے بہترین انتخاب ہیں۔ کئی مناظر میں جہاں انہوں نے مکالمات سے کام نہیں لیا، وہاں ان کے چہرے اور آنکھوں کے تاثرات سے دل کی بات کی عکاسی ہو رہی ہے۔

بات کی جائے سکینہ سموں کی تو وہ اس نوعیت کا کردار ایک اور ڈراما سیریل ’لوگ کیا کہیں گے‘ میں کر چکی ہیں، بلکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ اسی ڈرامے کا تسلسل ہے۔ دیپک پروانی نے بختیار یعنی بسمہ کے جیٹھ کا کردار ادا کیا ہے، جن کی نگاہیں ماں بیٹی کی جائیداد اور اپنی بیوہ بھابھی بسمہ پر بھی ہیں۔

شاطر اور چالاک بختیار کی سفاکیت یہ بھی ہے، جو نشوا کی کئی جائیدادیں ہونے کے باوجود دونوں ماں بیٹی کو احسان جتا کر رقم ادا کرتا ہے اور اس ساری چالاکی میں اسے والدہ یعنی سکینہ سموں کا ساتھ حاصل ہے۔ نشوا ماں کو اسی رحم و کرم سے نجات دلانے کے لیے خود مختار ہونا چاہتی ہے۔ دیپک پروانی کا انتخاب اس ڈرامے کا سب سے کمزور پہلو محسوس ہو رہا ہے کیونکہ وہ اب تک کی پرفارمنس سے کوئی تاثر نہیں چھوڑ پائے۔ کئی مرحلے پر وہ جذبات سے عاری اداکاری کر رہے ہیں۔

ڈرامے میں بیک وقت دو ٹریک الگ سے چل رہے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں بختیار کے عیاش اور بگڑے بیٹے عمار کا ہے جو گینگ ریپ کے مقدمے میں پھنس رہا ہے اور آنے والی قسطوں میں نشوا ہی اس کے خلاف عدالت کے کٹہرے میں کھڑی نظر آئے گی، جس کی وجہ سے اس کی اور اس کی ماں کی زندگی اجیرن بن سکتی ہے۔

ڈرامے میں اپنی انا کی تسکین اور خود غرضی کی بنا پر کسی کو اس کی حقیقی خوشیوں سے محروم کرنے کا پہلو بھی ملے گا وہیں گھریلو جنسی ہراسانی کے معاملے کو بھی اٹھایا گیا ہے۔

ڈرامے کی اب تک پانچ اقساط نشر ہو چکی ہیں۔ کہانی انتہائی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ عموماً ان اقساط میں تو کرداروں کا تعارف ہی ہو رہا ہوتا ہے لیکن ’قرض جاں‘ میں کہانی کا تیز رفتار ٹیمپو ہونے کی بنا پر یہ ڈراما ناظرین کو اپنی گرفت میں قید کرتا جا رہا ہے۔

رابعہ رزاق کے سکرپٹ کی خاص بات یہ رہی ہے کہ وہ کئی نازک اور حساس موضوعات کو کمالِ خوبی سے سکرین پر دکھانے کے ہنر سے واقف ہیں۔ ڈراما سیریل ’قرضِ جاں‘ میں دولت کی چمک دمک میں رشتوں کو سولی پر چڑھاتا ہوا دکھایا جا رہا ہے۔

ڈرامے میں اپنی انا کی تسکین اور خود غرضی کی بنا پر کسی کو اس کی حقیقی خوشیوں سے محروم کرنے کا پہلو بھی ملے گا، وہیں انتہائی مہارت کے ساتھ گھریلو طور پر جنسی ہراسانی کا شکار ہونے کے معاملے کو بھی اٹھایا گیا ہے۔ ان میں بسمہ کے جیٹھ بختیار کا بہانے بہانے سے اسے چھونا یا خلوت میں اپنے ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کی ناکام کوشش کرنا شامل ہے۔

’قرضِ جاں‘ میں اسی طرح مردانہ حاکمیت کو بھی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جیسے بختیار کا نشوا کے وکالت کے شعبے کو اختیار کرنے پر یہ کہنا کہ ’اب کیا مردوں کی برابری کا کام کروں گی؟‘

یہی نہیں، رابعہ رزاق کے پھانس کی طرح چبھتے ہوئے مکالمات خاصے پراثر ہیں۔ ایک منظر میں بسمہ کا انتہائی تکلیف دہ لہجے میں یہ کہنا: ’جو لوگ اپنی چیزیں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، وہ ان پر سے اپنا حق بھی کھو دیتے ہیں‘ خاصا متاثر کن ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ